Wednesday, January 7, 2015

ادب اور فحش نگاری۔

حال ہی میں فیس بک پر ایک ادبی فورم ترتیب دیا گیا ہے جس کے اغراض و مقاصد میں ایک ہی بات درج ہے کہ یہ ادبی فورم ،ادب میں بڑھتی ہوئی فحش نگاری، واہیات گوئی اور بے ہودگی کی روک تھام کی ایک کاوش کے طور پر “صاف ستھرے“ ادب کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کے لئے ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس دعویٰ کو پڑھ کر ہمیں بے اختیار بچپن میں سنی گئی “نبیوں کی کہانیاں“ میں سے ایک کہانی یاد آ گئی ، کہانی کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی کے سامنے ضد کی کہ مجھے بھی ایک مخلوق تخلیق کرنے کی اجازت دی جائے، ہمارے تصور میں کردار و مکالمے کچھ یوں ابھرتے ہیں کہ اللہ میاں نے مسکرا کر “سوچا“ ہو گا، موسیٰ یہ تمھارے دل میں کیا سودا سما گیا، کہاں تبلیغ اور کہاں تخلیق ، لیکن پھر موسیٰ علیہ السلام کی ضد اور اپنی رحمت و ربوبیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک پرندے کی تخلیق کی اجازت دے دی، اب 

ہوا یوں کہ، موسیٰ علیہ السلام نے بال و پر بنائے، چونچ اور پاؤں وغیرہ موزوں کیے اور نقش و نگار وغیرہ سے اپنا “تخلیقی“ شوق پورا کیا لیکن جب اصل مرحلہ یعنی ضروریات و حاجات کا معاملہ آیا تو شرم گاہ بنانے کے معاملے پر آ کر رک گئے بلکے جھینپ گئے ، سارا تخلیقی “شوق“ رفو ہو گیا اور نبوت کی “مجبوریاں“ آڑے آ گئیں۔ ( بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھول گئے، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو زیادہ قابل گرفت ہوتا) شرم گاہ بنانا تو دور کی بات شریعت میں تو اُس پر نظر ڈالنا اس کا تصور کرنا بھی گناہ ٹھرا ، قصہ مختصر نبی اللہ نے وہ پرندہ رفع حاجت و تناسل کی ضروریات کو پورا کرنے والے اعضاء کے بغیر ہی اڑا دیا، سُنا ہے وہ پرندہ آج تک منہ سے کھا کر منہ سے ہی اخراج بھی کرتا ہے۔ 

افادی ادب کا وجود مسلمہ ہے اور اس کی ضروریات ایک الگ موضوع ہے لیکن یہ تبلیغی لکھاری اور تبلیغی قاری کی تخلیق و قراءت کا حال بھی بس موسی علیہ السلام کے پرندے جیسا ہی ہے۔

ہمیں آج تک ایک بات سمجھ میں نہیں ائی کہ لوگ “فحش ادب“ کی اصطلاح کیسے اور کیونکر استعمال کر لیتے ہیں، بھئی ادب الگ شے ہے اور فحش نگاری الگ شے۔ ادب میں چاہے جتنا بولڈ موضوع اٹھایا جائے، چاہے جتنا تھیکا اور کھل کے لکھا جائے وہ فحش نگاری کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ جیسے ہی ایک تحریر فحش نگاری کے زمرے میں داخل ہوتی ہے وہ ادب کی کسی بھی قسم سےمتعلق نہیں رہتی۔

مانا کہ یہ ایک معروضی حقیقت نہیں ہے، ایک موضوعی بحث ہے اور فحاشی نگاری ہو یا “صاف ستھرا ادب“ یہ ہر شخص کے لئے ایک ذاتی نوعیت کا اور منفرد معاملہ ہے لیکن یہ بات اتنی بھی تجریدی نہیں ہے۔ ایک “فائن لائن“ سہی لیکن حد فاصل موجود ہے اور بہت واضع ہے۔ آئے دیکھتے ہیں کیسے؛

جنسی اعضاء، کے نام استعمال کرنا اور جنسی عمل کا ذکر کرنا فحش نگاری نہیں ہے نہ مذہب میں ، نہ حکمت میں، نہ قانون میں اور نہ ہی ادب میں مذہب میں جا بجا تفصیلٰا عبادات و معاملات کے احکامات میں جنسی اعضاء و اعمال کا ذکر ہے ، پستانوں کو کیسے پکڑ کر بچے کو دودھ پلانا ہے، زیر ناف طہارت و صفائی کے کیا احکامات ہیں، ہشفہ کو کیسے صاف و مطہر کرنا ہے، حتیٰ کہ دخول و خروجِ عضو اور انزال و اخراج مادہ کے مسائل پر پورے پورے ابواب ہیں لیکن کچھ بھی فحش نہیں ہے کیونکہ بیمار ذہنوں کو تشفی رہتی ہے کہ یہ مذہب کی طرف سے ہے اور اس دیگ میں جو بھی پکا ہے وہ ہلال ہے۔ طب و حکمت میں پورے پورے رسالے جنسی بیماریوں کے اسباب و علل اور جنسی اعضاء کی ساخت، ہجم اور افعال و کردار پر مشتمل ہیں لیکن قابل اعتراض نہیں ہے، قانون سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ لڑای جھگڑے، قتل و اقدام قتل اور ٹریفک حادثات کی ہر پولیس رپورٹ کے ساتھ ایک "عریاں" سکیچ لگا کر جسم کے اُن حصوں کو نشان زدہ کیا جاتا ہے جو کہ متعلقہ معاملے میں متاثر ہوئے ہوں ۔ اب رہ گیا ادب اور خاص طور سے افسانہ تو جب کسی کردار کی جنسی نفسیات کا تذکرہ یا تجزیہ مقصود ہو یا کسی کہانی میں واقعات کے تسلسل یا ارتباط سے نفس مضمون یا کرداروں کی داخلی کیفیت کا بیان مطلوب ہو تو اعضاء و اعمال اور باہمی اختلاط کا ذکر ضروری بلکہ مجبوری بن جاتا ہے ۔ 
مثال کے طور پر ایک خاتون تھیں جن کا خاوند بہت تند خُو، متشدد اور بد گو تھا، وہ اپنی بیوی کے منہ پر اپنی ساس کو غلیظ گالیوں بکنے کا عادی تھا، بعض اوقات تو بات گالیوں سے آگے بڑھ جاتی اور وہ اشاروں کنایوں میں ساس کے ساتھ باقائدہ جنسی عمل کے تکمیل پذیر ہونے کا اظہار کر دیتا۔وہ بیوی کی مسکین سی ماں کے بارے میں جتنا بد زبان تھا اپنی ماں کے بارے میں اتنا ہی حساس اور جذباتی تھا۔ اُس عورت کو اپنے خاوند سے نفرت تھی لیکن خاص طور پر جب وہ اُس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتا تو وہ اذیت و کراہت محسوس کرتی۔ بیوی بہت بے بس تھی کچھ اپنے میکے کے پس ماندہ ماحول کی وجہ سے اور کچھ اپنی بزدل طبیعت کی وجہ سے( ویسے تہذیبی تربیت کے اثرات سے ہماری اکثر خواتین اسی طرح “بے بس“ ہی ہوتی ہیں۔) وہ بہت عرصہ برداشت کرتی رہی۔

اور پھر نہ جانے کیسے اُس کے ذہن نے ایک کروٹ لی، 

ایک دن جب اُس کا خاوند بہت مدہوشی اور جنون میں اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے کی "تیاری" کر رہا تھا اور جیسے ہی اُس نے اُس کا بالائی لباس الگ کر کے اُس کے پستانوں کو چومنا شروع کیا ، بیوی نے دھیرے سے ذکر چھیڑ دیا ، آج میں بازار سے ایک انگیا لائی تھی، پتہ نہیں کیسے سائز غلط نکل آیا ، وہ مجھے کچھ بڑی نکلی لیکن میں نے بھی ضائع نہیں جانے دی، وہ اماں (ساس) کو پوری آ گئی اور میں نے اُن کو ہی دے دی، اماں کا اور میرا دیکھنے میں ایک ہی سائز ہے حتیٰ کہ رنگ اور گولائی بھی ایک ہی طرح کی ہے لیکن بس انگیا کا سائز ان کا تھوڑا بڑا ہے۔

یہ کہانی کا اگلا حصہ بتاتا ہے کہ خاوند کا کیا حال ہوا اور اُس کو کسی درجے کی ذہنی اور جنسی اذیت ملی لیکن کیا یہاں پر اعضاء کے نام ، ساخت اور تذکرے کے بغیر کہانی اپنا مضمون بیان کر سکتی تھی، کیا یہاں اشارے وہ کام کر سکتے تھے جو براہ راست الفاظ نے کیا۔

یہ فحش نگاری نہیں ہے، ہاں اگر بیوی کی نفسیاتی تبدیلی کے اشارے موجود نہ ہوں ، اُس کے انتقام کی رو کہانی میں بہتی ہوئی نظر نہ آئے اور خاوند کو ملنے والی اذیت کا احساس کہانی کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر نہ بکھرے تو یہ ایک عامیانہ رسالے کی بے ہودہ لائنز کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...