Friday, February 6, 2015

ایمان

بس میں بیٹھے چھ سالہ بیٹے نے پلاسٹک بیگ میں لپٹا کڑھائی والا سرخ رومال  اپنے ادھیڑ عمر باپ کے ہاتھ میں ایک لمحے کے لئے تھما کر
 اپنے ریشمی سنہرے بالوں کو ماتھے سے پیچھے کیا ، ناک سے پسینہ صاف کر کے اپنی امانت دوبارہ اپنے ہاتھ میں لی اور پھر سے باپ کو تفصیل بتانے لگا۔۔۔

یہ رومال تو اماں کے لئے تحفہ ہے مجھے پتہ ہے یہ رومال انھیں بہت پسند آئے گا

اور وہ جو ٹافیوں والا لفافہ  دوسرے ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے  صبح سے۔۔۔۔ باپ نے چھیڑنے کے لئے پوچھا

اوہو بابا ان کو ٹافیاں نہیں بولتے یہ چاکلیٹس ہیں یہ آپی کو دوں گا 
دیکھنا وہ مجھے کتنے پیار دے گی۔

تو ان کو کہیں رکھ دو نا یا جیب میں ڈال لو
نہیں ناں بابا جاتے ہی دوں گا اماں اور آپی کو ,بہت مزا آئے گا

میرے لئے کچھ نہیں لیا ناں۔۔۔ باپ نے پیار سے شکایت کی
(بچۓ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اُن نے فورا دانتوںکے نیچے دبی زبان کو منہ میں چھپا کر بات بدلی)
ارے آپ تو میرے ، آپی اور اماں کے لئے چیزیں لیتے ہو ناں 
پھر مین آپ کے لئے کیسے لیتا ۔۔۔میرے پاس پیسے کہاں سے آئے۔۔۔ 
 چلو ٹھیک ہے جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور خود سے پیسے کماؤ گے تو میرے لیئے چیزیں لایا کرنا. ٹھیک ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے بابا 
لیکن۔۔۔۔
کیا خدا ایک فلم کی طرح کسی انسان کی عمر روک نہیں سکتا
کیا وہ میرے بڑا ہونے تک آپ کو ایسے ہی نہیں رکھ سکتا 
کہ اپ بوڑھے نہ ہوں
باپ مسکرا کر بیٹے کا سر سینے سے لگا ہی رہا تھا کہ بس ایک جھٹکے سے رک گئی
  کیا ہوا ! کیا ہوا !!! سوئے ہوئے مسافر جاگ گئے
چند لوگ بس میں داخل ہوئے
،،،،،، 
اپنا اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نیچے آجاؤ ۔۔۔۔
تم بھی ۔۔۔
اور تم بھی
ہاں بچے کو بھی ساتھ ہی لے آؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دھول اُڑاتی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان چاروں کی گردنیں اُڑا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس۔۔۔۔ بب بب بچے کو تو چھوڑ دو
خدا را اس کو معاف کر دو۔۔

ہا ہا ہا ہا سانپ کا بچہ مطلب سپولیہ


نہیں ۔۔۔اس کو ابھی کیا پتہ 
اچھا ایسا کرو ۔۔۔!!! اس کو تم رکھ لو 
تم جیسا چاہو گے یہ ویسا بن جائے گا۔۔۔

یہ جب بڑا ہو گا تو اسے یاد بھی نہین ہو گا کہ  اس کے ماں باپ کون تھے
بچہ  والد کا منہ دیکھنے لگا۔

تسبیح کے دانوں پر انگلیوں کو پھیرتے ہوئے شخص نے پاس کھڑے ہونے ساتھی  سے سرگوشی کی
ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔۔۔ ابھی یہ چھوٹا ہے ، اس کا ایمان لوٹ آئے گا

نعرہ تکبیر
اللہ اکبررررررر۔۔۔۔۔۔ پہلی گردن گری تو بچے نے چاکلیٹ کا پیکٹ ہاتھ سے چھوڑ دیا
نعرہ تکبیر
اللہ اکبررررررر۔۔۔۔۔۔ دوسری گردن گری تو بچے نے رومال جیب میں رکھ دیا۔۔۔۔

نعرہ تکبیر

اللہ اکبرررررر۔۔۔۔

باقی افراد خاموش ہو گئے لیکن بچہ مسلسل نعرے کا جوا دے رہا تھا۔۔۔۔

اللہ اکبرررررر۔۔۔۔ 
اللہ اکبررررررر۔۔۔ 

میں نہ کہتا تھا اس کا ایمان جاگ جائے گا۔




No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...