بس میں بیٹھے چھ سالہ بیٹے نے پلاسٹک بیگ میں لپٹا کڑھائی والا سرخ رومال اپنے ادھیڑ عمر باپ کے ہاتھ میں ایک لمحے کے لئے تھما کر
اپنے ریشمی سنہرے بالوں کو ماتھے سے پیچھے کیا ، ناک سے پسینہ صاف کر کے اپنی امانت دوبارہ اپنے ہاتھ میں لی اور پھر سے باپ کو تفصیل بتانے لگا۔۔۔
یہ رومال تو اماں کے لئے تحفہ ہے مجھے پتہ ہے یہ رومال انھیں بہت پسند آئے گا
اور وہ جو ٹافیوں والا لفافہ دوسرے ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے صبح سے۔۔۔۔ باپ نے چھیڑنے کے لئے پوچھا
اوہو بابا ان کو ٹافیاں نہیں بولتے یہ چاکلیٹس ہیں یہ آپی کو دوں گا
دیکھنا وہ مجھے کتنے پیار دے گی۔
تو ان کو کہیں رکھ دو نا یا جیب میں ڈال لو
نہیں ناں بابا جاتے ہی دوں گا اماں اور آپی کو ,بہت مزا آئے گا
میرے لئے کچھ نہیں لیا ناں۔۔۔ باپ نے پیار سے شکایت کی
(بچۓ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اُن نے فورا دانتوںکے نیچے دبی زبان کو منہ میں چھپا کر بات بدلی)
ارے آپ تو میرے ، آپی اور اماں کے لئے چیزیں لیتے ہو ناں
پھر مین آپ کے لئے کیسے لیتا ۔۔۔میرے پاس پیسے کہاں سے آئے۔۔۔
چلو ٹھیک ہے جب تم بڑے ہو جاؤ گے اور خود سے پیسے کماؤ گے تو میرے لیئے چیزیں لایا کرنا. ٹھیک ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے بابا
لیکن۔۔۔۔
کیا خدا ایک فلم کی طرح کسی انسان کی عمر روک نہیں سکتا
کیا وہ میرے بڑا ہونے تک آپ کو ایسے ہی نہیں رکھ سکتا
کہ اپ بوڑھے نہ ہوں
باپ مسکرا کر بیٹے کا سر سینے سے لگا ہی رہا تھا کہ بس ایک جھٹکے سے رک گئی
کیا ہوا ! کیا ہوا !!! سوئے ہوئے مسافر جاگ گئے
چند لوگ بس میں داخل ہوئے
،،،،،،
اپنا اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نیچے آجاؤ ۔۔۔۔
تم بھی ۔۔۔
اور تم بھی
ہاں بچے کو بھی ساتھ ہی لے آؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دھول اُڑاتی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان چاروں کی گردنیں اُڑا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس۔۔۔۔ بب بب بچے کو تو چھوڑ دو
خدا را اس کو معاف کر دو۔۔
ہا ہا ہا ہا سانپ کا بچہ مطلب سپولیہ
نہیں ۔۔۔اس کو ابھی کیا پتہ
اچھا ایسا کرو ۔۔۔!!! اس کو تم رکھ لو
تم جیسا چاہو گے یہ ویسا بن جائے گا۔۔۔
یہ جب بڑا ہو گا تو اسے یاد بھی نہین ہو گا کہ اس کے ماں باپ کون تھے
بچہ والد کا منہ دیکھنے لگا۔
تسبیح کے دانوں پر انگلیوں کو پھیرتے ہوئے شخص نے پاس کھڑے ہونے ساتھی سے سرگوشی کی
ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔۔۔ ابھی یہ چھوٹا ہے ، اس کا ایمان لوٹ آئے گا
نعرہ تکبیر
اللہ اکبررررررر۔۔۔۔۔۔ پہلی گردن گری تو بچے نے چاکلیٹ کا پیکٹ ہاتھ سے چھوڑ دیا
نعرہ تکبیر
اللہ اکبررررررر۔۔۔۔۔۔ دوسری گردن گری تو بچے نے رومال جیب میں رکھ دیا۔۔۔۔
نعرہ تکبیر
اللہ اکبرررررر۔۔۔۔
باقی افراد خاموش ہو گئے لیکن بچہ مسلسل نعرے کا جوا دے رہا تھا۔۔۔۔
اللہ اکبرررررر۔۔۔۔
اللہ اکبررررررر۔۔۔
میں نہ کہتا تھا اس کا ایمان جاگ جائے گا۔
Rizwana Syed Ali اللہ اکبر سوچنے کی جائے ھے ۔ قمر سبز واری یہ کہانی یا افسانہ نہیں بلکہ وقت کی آواز ھے
Hasnain Aaqib یار کیا کہوں ! افسانے کے مجموعی تاثر نے تو بھونچکا کر دیا ہے۔
Hamza Malik Sahil میں جمیل الرحمن صاحب کی رائے سے بالکل متفق ہوں۔ بلکل اخیر میں بچے کے رد عمل میں پڑھنے والے کو ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
Fatima Zehra Jabeen اچھی کہانی ہے جو دورِ حاضر کی عکاس ہے لیکن اختتام پر بچے کے رد عمل میں کچھ تشنگی سی ہے ۔۔ بچے کے اللہ اکبر کہنے سے قبل دو ایک لائینوں کی اضافت اس احساس تشنگی کو دور کر سکتی ہے ۔ ۔
Qamar Sabzwari تمام دوستوں کا ممنون ہوں کہ میرے اکثر غیر حاضر رہنے کے باوجود میری تحریر کو پڑھا اور سراہا۔ کچھ معزز احباب نے بچے کے رد عمل میں کمی کی شکایت کی ہے۔ ایک چھ سال کے بچہ جس کے سامنے اُس کے باپ کی گرد کاٹی جا رہی ہو اُس کا رد عمل سکتے اور جنون کے عالم میں باقی کریہہ آوزوں اور ماحول کے ساتھ مل جانے کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔
Ishrat Naheed یا اللہ.. آجکل جس طرح کی خبریں آرہی ہیں کہ چھوٹے بچوں کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا
ویسا منظر پیش کرنے والی کہانی... اختتام پر دھڑکنیں تیز ہو گئیں
بہت عمدہ....
Zain Haq سچائی سے بھرپور ایک عمدہ افسانہ
Shahid Jamil Ahmad بھئی بہت خوب ! نہایت عمدہ مختصر افسانہ ! فکر انگیز اور حسبِ حال ! کمال کیا قمر سبزواری بھائی صاحب !
Zubair Sayaf سر قمر سبز واری صاحب آپ کے منفرد ادیب ہونے میں کوئی شک نہیں واہ واہ کیا بات ہے ..
Farhat Rehman اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر یہ ظالم لوگ، اللہ اکبر
Nasim Syed اللہ اللہ ۔۔۔۔کس کیفیت میں لکھا ہو گا اور کس حال کو پہنچے ہو نگے اسے لکھتے ہو ئے شا ید بچے کی طرح دیوانہ وار چیخ رہے ہوں ۔اللہ واکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قمر سبز واری کیا دا د دوں اور کیا کہوں شریک غم ہوں
Noor Ul Ain Sahira جھرجھری آ گئی پڑھ کر بری طرح ۔ تبصرہ پھر کسی وقت ۔ ابھی ممکن نہ ہو گا ۔
Adam Sher اس پر اور کیا کہوں کہ اللہ اکبر۔۔۔ یہ تو ہماری ہی کہانی ہے
Anjum Kidwai کیا لکھوں ؟؟؟ دل کو دہل کر رھ گیا ۔۔۔اب تو یہ ہر جگہ ،اور ہر دن کی کہانی ہے ۔۔۔روح کانپ جاتی ہے سوچ کر ۔۔آپ نے کیسے لکھا ہوگا ۔۔۔اللہ و اکبر ۔۔۔۔۔
Nasir Siddiqi ایک پیغام دکھاتا،اس سے زیادہ اچھا،دردناک بلکہ شاک انگیز افسانہ اور کیا ہوگا؟؟؟
Qamar Sabzwari تمام احباب کا فردا فردا ایک بار پھر شکر گزار ہوں۔ نسیم سید صاحبہ اور انجم کدوائی صاحبہ واقعی لکھتے وقت آنکھیں نم اور دل مسلا ہوا تھا لیکن اس افسانے سے زیادہ کرب ناک اور بھیانک یہ حقیقت ہے کہ ہمارے تخلیق کار اس موضوع اس ناسور پر کچھ لکھنا نہیں چاہ رہے ی...See More
Iqbal Hasan بھئی بہت ہی شاندار ۔ قمر سبزواری ۔ بہت دنوں بعد ایک عمدہ کہانی پڑھی ۔ یہ ضرور ہے کہ اتنی سفاک حقیقت پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بہر حال تم نے کمال لکھا ۔ جیتے رہو ۔
Parvez Saleem دل خون کے آنسو ورتا ہے اس طرح کے واقعات پڑھ کر یا سن کر کہ نام نہاد مسلمان اللہ کا نام لے کر کیسی گھناونی حرکت کرتے ہیں
Nastaran Fatihi یقینا اس افسانے میں ایک ایسی سفاک حقیقت کو ایسی چابک دستی سے اورکم لفظوں میں برہنہ کیا گیا ہے کہ اس معصوم کردار کا خوف صدمہ اور ہزیانی کیفیت ،اچا نک قاری کےدل ودماغ پر اسی طرح منتقل ہو جاتی ہے.اس تحریر کا کمال یہی ہے کہ اچا نک منظر بدلتا ہے اور دونوں منظر کا تضاد قاری کو گنگ کر جاتا ہے .ایک ایسی تحریرجسے پڑھنا بھی محال ہو وہ آج کی بڑی سفاک حقیقت ہے . میری طرف سے قمر سبزواری کو بہت مبارک اس کامیاب مختصر افسانے کے لئے.
Muhammad Khawar اعلیٰ ۔ ایک بہت عمدہ تحریر ہے ۔ بچے کے کہے ہوئے اللہ اکبر کی بازگشت یہاں تک سنائی دی ۔ پنچنگ لائن بھی بہت عمدہ ہے ۔ بہت کم الفاط میں بہت بڑی بات کہہ دی ہے ۔ داد قبول کریں ۔
Qamar Sabzwari پرویز سلیم صاحب، کوثر بیگ صاحب، نسترن صاحبہ اور محمد خاور صاحب سپاس گزار ہوں۔ اقبال حسن صاحب اپ کی قرآت ہی اعزاز سے کم نہیں ۔ بہت دنوں بعد جمود ٹوٹا اور دو تین افسانے شروع کیئے ایک کاغذ پر اتر آیا باقی دو تین انشاء اللہ آنے والے دنوں میں۔
Ammarah Khan بچے کی کیفیت کا ایک فیصد اندازہ اور ننانوے فیصد اس کی تکلیف محسوس کی. کیونکہ میں خود ماں ھوں.. اور بس...
Qurb E Abbas ماؤں سے شعور کا لباس چھین کر انہیں برہنہ کرکے کون سے پارسا خدا کے نعرے فضا میں بلند ہیں... میں نہیں جانتا... لیکن میں ایسے میلے خدا کو ماننے سے انکار کرتا ہوں جو جگر کا خون جسم پر مل کر عظیم ہونے کا داعی ہے.
Nasir Siddiqi قمر سبزواری نے میرا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔اس کا مطلب کیا ہے؟ کوئی بھائی مجھے سمجھا سکتا ہے؟ہاہاہا
Qamar Sabzwari ارے ناصر بھائی شکریہ غیروں کا ادا کیا جاتا ہے جن جن کا شکریہ ادا کیا وہ تو غیر ہیں آپ تو میرے اپنے بھائی ہیں آپ کا شکریہ بھلا کیسا۔ قرب عباس مذہبی خدا ایک بت کے سوا کچھ نہیں اصل خدا تو کہیں پردے کے پیچھے بیٹھا آنسو بہا رہا ہے۔ اب بت ٹوٹے تو پیچھے کچھ نظر آئے۔
Noor Ul Ain Sahira میں نے کہا تھا تبصرہ کبھی بعد میں کروں گی اس افسانے پر کیونکہ پڑھنے پر عجیب سی حالت ہو گئی تھی ۔ بہت بہت عمدہ لکھا قمر سبزواری صاحب ۔ آج ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اور المیہ ہی دہشت گردی ہے اور آپ نے ایک معصوم ذہن پر اسکے اثرات جیسے دکھائے ہیں پہلے اسکے ہاتھ سے چاکلیٹ والا تھیلا گرتا ہے۔ یقین کریں ایسا لگا کہ نظروں کے سامنے دیکھا ہو۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے اگر کچھ جملے ایڈ کر دئے جاتے تو بہتر رہتا۔ شاید ایسا ہی ہو ،اس بارے کچھ کہ نہیں سکتی لیکن مجھے یوں بھی مکمل لگا۔ چھ سال کا معصوم ذہن اور بولے گا بھی کیا اور سمجھے گا بھی کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید وہ تو قتل یا گردن اڑا داینے یا اس تکلیف سے بھی ناواقف ہو گا ابھی
Nasim Syed ارے ناصر بھائی شکریہ غیروں کا ادا کیا جاتا ہے جن جن کا شکریہ ادا کیا وہ تو غیر ہیں " میرا بھی شکریہ ادا کیا گیا ہے یعنی ۔۔ ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی ملا قاتون کے بعد ۔۔ اس بے مروتی کی کو ئ حد ہے ؟
Nasir Siddiqi اب آپ آپا کے ہاتھوں مارے گئے قمر بھائی۔مجھے پہلے سے پتہ تھا کہ میری محبت میں آپ "غیروں" کے ہاتھوں مارے جاؤگے۔ہاہاہاہاہا
Qamar Sabzwari قسم کھا کے کہیں کہ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا ، کب کیا، میں تو آپ سب پیار کرنے والوں کا ممنون ہوا تھا، سپاس گزار ہوا تھا ؎
Noor Ul Ain Sahira افسوس میرا شمار نہ دوستوں میں نہ غیروں میں مجھے تو سرے سے اگنور کیا ہے " سبز قمرواری " نے
Nasim Syed یار یہ سبز قمر واری بہت اچھا ہے ۔۔۔ یا یوں کرتے ہیں ز اڑا دیں تو سب بنا اور ق م ر اڑادیں تو واری نا یعنی " سب واری " ٹھیک رہے گا
Qamar Sabzwari "سبزوار" ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے۔ میں بھی ہوں اک دیا اُسی اجڑے دیار کا۔
Amin Bhayani محترم Qamar Sabzwari بھائی، کچھ کہنے کی سکت نہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ لوگ اِس موضوع پر لکھنا تو ضرور چاہتے ہیں مگر ایسی ہمت کہاں سے لائیں۔ لیکن بہت اچھا کیا جو آپ نے ہمت کی ہے۔ بخدا آپ نے دل چیر دیا ہے قاری کا۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
Amin Bhayani محترم Qamar Sabzwari بھائی، آپ نے اُوپر کہیں کہا کہ محترم Shamoil Ahmad صاحب دہشت گردی کی نفسایات پر کوئی تحقیقی کتاب لکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے اِس ناچیز کا ایک افسانہ بعنوان "کیا پیرس بھی جہنم جیسا ہی ہے" میں میں اپنے تئیں دہشت گردی کی عین دہشتگری سے قبل کی نفسیاتی سوچ کو افسانے کی صورت میں قلمبند کرنے اپنی سی کوشش کی ہے۔ یہ تو نہیں جانتا کہ کسقدر کامیاب یا ناکام رہا۔ البتہ چاہیں تو حاضر کر سکتا ہوں۔
Naeem Baig بڑھتی ہوئی تباہ کن دہشت گردی جس طرح معاشروں میں سرایت کر رہی ہے ۔ وہ ہمارا خطہِ سرزمین ہو یا پیرس ۔۔۔ انسان ہر جگہ اپنی توقیر کھو رہا ہے۔ بچوں کے من میں پھول کھِلنے کی بجائے بارود کے ڈھیر سجائے جا رہے ہیں۔ اس منظر میں قمر سبزواری نے ایک آواز اٹھائی ہے۔ یہ کہانی اس المیے کی چیخ ہے ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment