Saturday, January 3, 2015

ہارمون۔

ٹی وی پر نیوز چینل کا ایک مخنث سا رپورٹر ایک رنگ برنگی دھاریوں والے پھڑپھڑاتے ہوئے پرچم کے نیچے کھڑے ہجوم کے


پس منظر کے ساتھ خبر دے رہا تھا۔۔۔ ناطرین آج کا دن تاریخی اہمیت کا حامل دن ہے، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج عالمی تہزیب و ثقافت کے مرکز اس شہر میں ہم جنسوں کی شادی کا قانون پاس ہونے کے بعد ،لوگ جوش و جذبے سے بے قابو ہر کر سڑک پر جمع ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم جنس پرستی کوئی نفسیاتی بیماری، کوئی جسمانی عارضہ، کوئی گناہ یا کوئی جرم بھی نہیں ہے، اور اب تو یہ آپ کا قانونی حق ہے۔۔۔ یہ تو ہارمونز کا فیصلہ ہے مجھے کہنے دیں کہ یہ آپکا پیدائشی حق ہے۔ اپنی زندگی جیئیں، گھٹ گھٹ کر اپنے آپ کو مار کر نہ جیئیں۔۔۔۔۔


اُس نے صوفے میں دھنسے دھنسے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کروٹ بدلی اور میوٹ کا بٹن دبا تے ہوئے ریموٹ ایک طرف پھینک کر، سر صوفے کی پشت پر ٹکا کر، چھت پر لگے مکڑی کے جالے لپٹے پنکھے کو گھورنے لگا، جو اس پرانی عمارت کے اس درمیانے درجے کے اپارٹمنٹ میں ایئر کنڈیشنر کے لگنے کے بعد بہت سالون سے بے مقصد لٹک رہا تھا۔۔۔ جیسے اُس کے ماضی کے چند برس بھی مکڑی کے جالے کی طرح کہیں لپٹے رہ گئے تھے۔۔۔


اُس کے گھورتے گھورتے پنکھا ریل گاڑی کے پہیے کی طرح دھیرے دھیرے گردش کرنے لگا اور اُس کی خرر خرر کی آواز سے کمرے کا منظر پندرہ سولہ برس پہلے وہاں سے ہزاروں میل دور کے ایک مضافاتی علاقے کے چھوٹے سے گھر کے کمرے میں تبدیل ہو گیا۔ 


سکول سے گھر آتے ہوئے اُس کے ذہن میں استاد جی کی باتیں دوبارہ گونجنے لگیں تھیں، گدھے، نالائق، صرف تین صفحے دیئے تھے اور وہ بھی یاد نہیں ہوئے تجھ سے ،استاد جی تین تو صرف آپ نے دیئے تھے ریاضی کی پوری مشق اور قاری صاحب نے پوری سورہ یاسین زبانی۔۔۔۔۔۔ ، چپ ناہنجار تُو ہے ہی سُست، یا تو تیرے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے یا پھر تُو ہڈ حرام ہو گیا ہے اور اسے استعمال ہی نہین کرتا ۔۔۔اور جو فضول کام ہیں وہ تو تُو بہت خوب کر لیتا ہے۔۔۔ ڈرائینگیں کر کے رنگ ایسے بھرے گا جیسے بہت بڑا پینٹر ہے، اپنا نام ایسے ایسے انداز سے لکھے گا جیسے صادقین اسی کا باپ تھا ،،،استاد جی نے آخری جملہ لڑکوں کی طرف منہ کر کے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔جس پر پورا کلاس روم صادقین سے ناواقفیت کے باوجود قہقہوں سے گونج اُٹھا تھا، چل ہاتھ نکال ۔۔۔اور استاد جی نے سولہ بید گن کر اُس کے ہاتھوں پر برسائے ، مار کھاتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح لیٹرین کی طرف بھاگاتھا ، پتہ نہیں کیوں جب اُسے کوئی چوٹ لگتی تھی یا وہ پریشان ہوتا تو اُس کے پیٹ میں ایک مروڑ سا اٹھتا تھا اور اُسے بے بس ہو کر فورآ رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا ، لیٹرین میں کچھ دیر رو کر جب وہ وآپس آیا تو پورا پیریڈ اپنے ہاتھ بغلوں میں دبائے عجیب و غریب بے تکی باتیں سوچتا رہا تھا ۔۔۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے اس بات کو تین چار گھنٹے گزر چکے تھے اُسے ہاتھوں پر بید لگنے کا درد کم ہو گیا تھا لیکن اُس کے دل و دماغ پر اُس وقت سے وہی عجیب سی کیفیت چھائی ہوئی تھی جو اکثر ایسے مواقع پر اُسے گھیر لیتی تھی ۔۔۔ اُس کے سر کے اندر جیسے پیلی پیلی سی دھند بھری ہوئ ہو اور دل و دماغ میں پیدا ہونے والا ہر خیال ، ہر سوال ہر غصہ اور انتقام اُس دھند کے اندر کسی کثیف سی دلدل میں دھنستا جاتا ہو۔


گھر میں داخل ہوتے ہی روزانہ کی طرح ماں نے آگے بڑھ کر اُس سے بستہ تھام لیا ، وہ کپڑے بدل کے آیا تو چٹائی پر کھانا چنا ہوا تھا پنکھے کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے نیچے بیٹھ کر اُس نے کھانا شروع کیا تو ماں پاس بیٹھ کر کبھی اُس کے شانے اور کبھی گھٹنے پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگی ، ماں پاس ہوتی تو وہ دھند اور دلدل پتہ نہیں کہاں غائب ہو جاتی تھی شاید اس کا جسم اُسے جذب کر لیتا تھا یا شاید وہ دھواں بن کر ہوا میں اُڑ جاتی تھی۔


کھانا کھا کر وہ وہیں پنکھے کے نیچے چٹائ پر لیٹ گیا ، وہ اکثر اُلٹا لیٹتا تھا۔ ابا ابھی گھر نہیں آئے تھے اس لئے اُس کی ماں برتن رسوئی میں رکھ کر وآپس آ کر اُس کے پاس بیٹھ کر اُس سے سکول کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ شام کے کھانے کے لئے چاول صاف کرنے لگی وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اُس کی کمر پر ہاتھ پھیرتی یا کوئی بات سمجھاتے ہوئے پیٹھ پر پیار سے چپت لگا کر مل دیتی ۔۔۔ ماں جب پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی تو اُسے شرم بھی آتی اور اچھا بھی بہت لگتا تھا وہ نیند میں ڈوبنے سے پہلے سوچ رہا تھا ابا ایسا کیوں نہیں کرتے انھوں نے تو کبھی مجھے دلاسہ بھی نہیں دیا۔۔۔


نجانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔۔۔۔اچانک کسی برتن کے گرنے کے شور سے اُس کی نیند ٹوٹ گئی، اُس کا منہ تکیے میں چھپا ہوا اور آنکھیں بند تھین لیکن کانوں کو ابا کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ابا تھکے ہارے کام سے گھر وآپس آئے تھے اور کسی بات پر غصے میں آ کر پانی کا گلاس اماں کے دے مارا تھا اور اب کہہ رہے تھے،خود تو جاہل ہو ہی اسے بھی تباہ کر رہی ہو یہ تمھارے پیار کا ہی نتیجہ ہے، اس پر سختی کیوں نہیں کرتی ہو، کبھی سوچا ہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا اور سونا جاگنا ابھی تک بچوں جیسا کیوں ہے ، ساتویں میں پڑتا ہے اور لگتا ہے ابھی تیسری جماعت کا بچہ ہے سویا دیکھو کیسے ہے جیسے کوئی ہیجڑا ادائیں دکھا رہا ہو ، کچھ پیدائشی زنخے ہوتے ہیں یہ اپنی عادتوں سے بنے گا ۔۔۔۔


ابھی بچہ ہی تو ہے، اور آپ اسے گھر سے باہر گلی محلے کے بچوں کے ساتھ بھی تو زیادہ کھیلنے پھرنے نہیں دیتے کہ ان جیسا جاہل نہ ہو جائے نہ اُسے خود باہر جاتے ہوئے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں پھر کیسے تیز طرار ہو تا، اس عمر میں لڑکے بالے قابو میں ہی نہیں آتے اور میرا بیٹا تو ماشاء اللہ لاکھوں میں ایک ہے ، بڑا ہو گا تو دیکھنا کیسا سمجھدار اور کیسا گبرو جوان بنے گا میرا بیٹا ۔


ماں نے حسب دستور پلو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اُس کی وکالت کر دی تھی ۔۔


بڑا ہو گا تو کون سا تیر مارے گا، یہ مرد کے بچوں کی دنیا ہے اور خاص کر ہمارا علاقہ ۔۔۔۔ پتہ ہے کیسا کیسا نشئی، جواری اور خناس رہتا ہے یہاں پر لیکن ایک بار مین اپنی شیر والی نظر سے آنکھ میں آنکھ ڈال کے دیکھوں تو مجال ہے جو کوئی دوبارہ نظر اٹھائے لڑکوں کو دلیر ہاتھ چھٹ اور جی دار ہونا چاہئے ، لڑکیوں کی طرح بھولا بھالا اور معصوم نہیں۔


وہ کانپتے دل کے ساتھ کافی دیر وہیں ساکت پڑا رہاتھا اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنے کلاس روم کا منظر گھومنے لگا تھا وہ ڈیسک کے اوپر ناچ رہا ہے اور سب لڑکے تالیاں بجا بجا کر ہنس رہے ہیں کچھ دیر بعد وہ چٹائی سے ایسے اٹھا جیسے اُسنے کچھ سنا ہی نہ ہو اور لیٹرین میں گھس گیا تھا ، لیٹرین اُس کے لئے جیسے ایک جائے پناہ تھی، جیسے وہ اُس کا گھر اُس کا من تھا، یہاں وہ خود سے باتیں کرتا ، دیر تک روتا ، جھاڑو سے تنکے توڑ توڑ کر پاؤں کے ناخن میں گھسیڑتا اور زمین پر لکیریں لگاتا رہتا ، لیٹرین میں اُسے کوئی آواز نہیں دیتا تھا، کوئی غصہ نہیں کرتا تھا، کوئی اُس کے جسم اُس کی حرکات و سکنات کا جائزہ نہیں لیتا تھا۔۔۔اگر کوئی بات ہوتی بھی تو کم از کم اتنی دیر رک جاتی تھی جتنی دیر وہ لیٹرین میں پناہ لیے ہوتا ۔ وہاں سے نکل کر برآمدے میں پڑا بستہ سائیکل کے پیچھے رکھتا ہوا وہ سیدھا ٹیوشن کے لئے نکل گیا ۔ اماں اچھی تھی لیکن ابا سے ڈرتی تھی، روتی تھی، اُس کا دل چاہتا تھا کوئی ایسا ہو جو ماسٹر جی کی طرح بہت پڑھا لکھا ہو، اور ابا کی طرح بہت غصے والا اور بہادر ہو، لیکن وہ اُس کا دوست ہو وہ اس کی جگہ استاد جی سے بات کرے، ابا سے لڑے۔۔ پیلی دھند نے پھر اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ 


سائیکل چلاتے ہوئے وہ بار بار اپنے ذہن میں اپنے وجود، اپنے اٹھنے بیٹھنے کے انداز اور اپنے چہرے کا تصور کرنے لگا تھا کبھی اُسے اپنا اپ ایک سخت مزاج لمبے تڑنگے لڑکے کے روپ میں نظر آتا اور کبھی ایک شرماتے لجاتے سہمے ہوئے ہیجڑا نما بچے کا جو بار بار اپنی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر اپنی قمیض درست کر رہا ہوتا ۔ 


ٹیوشن والے ماسٹر جی کے پاس بیٹھا ہوا وہ سوچنے لگا کاش ٹیوشن کا ٹائم کبھی ختم نہ ہو یا پھر اس کے بعد کہیں اور جانا پڑا کرے، اُسے کاموں کے ختم ہونے سے نفرت سی ہو گئی تھی کیوںکہ ہر کام کے ختم ہونے پر گھر جانا پڑتا تھا اور گھر جانے سے اُسے وحشت ہوتی تھی، ہاں جب ابا کام کے سلسلے میں دو تین دن کے لئے شہر سے باہر ہوتے تھے تو وہ گھر میں بہت خوش رہتا تھا۔


جب وہ ٹویشن سے گھر کی طرف نکلا تو اُس کے سر سے ساری دھند غائب ہو چکی تھی، کہیں سے شام کی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اُسے سائیکل چلانا بہت اچھا لگا اُس نے منہ ہوا کی طرف کر کے ایک دو لمحوں کے لئے آنکھیں بند کیں اور ایسے محسوس کرنے لگا تھا جیسے ہوا میں اُڑ رہا ہو لیکن ہوش اس وقت آیا جب اُس کا منہ زمین پر جا لگا ، وہ ایک لڑکے سے ٹکرا گیا تھا لڑکے نے اٹھتے ہی اُسے دو تھپڑ لگائے اور اُس کا گریبان مروڑ کر پکڑ لیا، کیوں اوئے ممی ڈیڈی سائیکل کی گدی لے کے سونے کا بہت شوق ہے ، میرے ساتھ سوئے گا؟ پہلی بار تھوڑا بہت اچھلے گا لیکن پھر خود بھاگا بھاگا آیا کرے گا۔۔۔۔


اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔


جب وہ گھر پہنچا تو ابا برآمدے سے گزر رہے تھے، اس کے منہ پر لگی دھول مٹی دیکھ کر طنزیہ انداز میں ہنسے اور کمرے میں چلے گئے اُسے لگا وہ اُس کے نہیں بلکہ اُس لڑکے کے ابا تھے جس نے اُسے مارا تھا۔۔۔ وہ دھند میں لپٹا لیٹرین میں داخل ہو گیا تھا ۔


وہ طرح طرح کے خواب دیکھا کرتا تھا، اُڑنے والی مشین بنانے کے، بہت سے غبارے خرید کر اُن سے شمعیں باندھ کر رات کو چھوڑ دینے کے ، بہت سے دوست بنا کر اُن کے ساتھ بہت دور دور گھومنے جانے کے، آُسے ڈرائنگ اور خطاطی کرنے کا بھی شوق تھا وہ ایک ہی نام ۔۔۔ عام طور پر اپنے نام کو ہی مختلف انداز میں لکھا کرتا اور اکثر پھولوں اور پتوں کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔۔ اُسے کبھی کبھی خود پر غصہ بھی آتا کہ ابا اُسے ایک سخت سا مرد بنتا دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ ہر وقت کھیل کود اور خوشی و مزے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔


ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ 


وہ محلے کے لڑکوں میں اٹھے بیٹھے گا اور بالکل ایسا بنے گا جیسا کہ ابا چاہتے تھے، اب وہ سکول یا ٹویشن آتے جاتے اور آدھی چھٹی کے وقت سکول کے احاطے میں مختلف لڑکوں کے چلنے، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز یا آواز کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیتا رہتا، کسی کی آواز اُسے بھاری اور مردانہ لگتی تو وہ اُس کی طرح بولنے کی کوشش کرتا، کوئی ٹانگیں کھول کر پائنچے اُٹھا کر بازو پھیلا کر کسی فلم کے ولن کی طرح بیٹھتا تو وہ کن اکھیوں سے اُس کو دیکھتا رہتا اور پھر اُسی طرح بیٹھنے کی کوشش کرتا لیکن اتنی دیر میں اُسے یاد آتا کہ وہ بھاری آواز میں بولنا تو بھول ہی گیا ہے اور اُس نے اپنے من میں ابھی خود سے جو بات کی تھی وہ تو اپنی اصل آواز مین ہی کر دی تھی۔۔۔ اچانک سکول کی گھنٹی بجتی اور وہ ہڑبڑا کلاس روم کی طرف بھاگتا اور وہاں پہنچ کر اُسے یاد آتا کہ وہ تو اُس انداز میں چل کر آیا ہی نہیں جس کا اُس نے ارادہ کیا تھا اور یہ کیا وہ تو پھر اُسی طرح بیٹھا ہے جیسے وہ روزانہ بیٹھا کرتا تھا حالانکہ ابھی ابھی تو اُس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بازو پھیلا کر ، ٹانگیں کھول کر اور پائنچے اُٹھا کر بیٹھے گا۔ بعض اوقات وہ سوچتے سوچتے چونک کر استاد جی کی طرف دیکھتا تو وہ اُسے حیرت سے گھور رہے ہوتے تھے۔


ایک دن اُسے سکول کے میدان میں ایک لڑکا نظر آیا تھا جو ایک ہاتھ پیٹ کے برابر ہوا میں لٹکا کر کمر کو خفیف سا بل دے کر چل رہا تھا وہ اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑا تھا اُس لڑکے کی کمر دوسرے لڑکوں سے پتلی تھی اور اُس میں لچک بھی زیادہ تھی، ہاتھ سفید سفید اور نازک سے تھے اور انگلیاں لمبی اور پتلی، اُس نے آگے جا کر غور سے اُس کے چہرے کا جائزہ لیا ا لیکن چہرہ بالکل عام لڑکوں جیسا تھا وہ بے چین ہو کر تیز تیز قدموں سے وآپس سکول کے اندر چلا گیا اور لیٹرین میں جاکر قمیض اٹھا کر اپنی کمر کو ہلا ہلا کر دیکھنے لگا تھا کبھی اُس کو اپنی کمر پتلی لگتی تھی کبھی موٹی اور کبھی بالکل ٹھیک، اُس نے اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کا جائزہ لیا اور تھوڑی دیر کے لئے قدرے مطمئن سا ہو کر کلاس روم کی طرف چلا گیا تھا۔


آن دنوں اُس کی جماعت کے لڑکے چھٹی کے بعد کچھ دیر سکول کے سامنے ہی میدان میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے ایک وہ بھی وہاں رک گیا اور اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ کھیل میں شامل ہو گیا پہلے بیٹنگ دوسری ٹیم کے حصے مین آئی اور اُسے سلپ پر کھڑا کیا گیا گیند تیزی سے آئی وہ ابھی ہاتھوں کا پیالہ بنا کر جھک ہی رہا تھا کہ گیند اُس کی ٹانگوں سے نکل کر باونڈری پر جا پہنچی تھی ایک دو لڑکوں نے اوووووہ ہ ہ ہ ہ کی آواز بلند کی اُسے پسینہ آ گیا اور وہ اگلی بار کے لئے مزید چوکنا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد گیند اُس کے دائیں گھٹنے کے پاس سے گولی کی طرح گزری وہ فقط ہلکی سی جنبش کھا کر خالی ہاتھ ہوا میں اُٹھا کر رہ گیا تھا، اس نے محسوس کیا کہ آنکھوں سے منظر دیکھنے اور ہاتھوں سے رد عمل ظاہر کرنے کے درمیان اُسے بہت دیر لگتی تھی جبکہ باقی لڑکوں کے ہاتھ پاؤں جیسے خود بخود فوری رد عمل ظاہر کرتے تھے۔۔ میرے اندر کوئی خرابی ہے ۔۔۔۔ اُسے سوچ میں پڑا دیکھ کر ، سب لڑکے اُس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ، اُس کے ساتھ کھڑا لڑکا بولا ، بیٹا تو بٹیرے پکڑا کر گیند پکڑنا تیرے بس کا کام نہیں ہے ، بس آج سے تیرا نام بٹیرا ہو گیا ، سب لڑکے ہنسنے لگے تھے، وہ دو چار قدم پیچھے سرک گیا تا کہ باقی لڑکوں کو اُس کے آنسو نظر نہ ائیں۔۔۔۔ کچھ دیر میں فیلڈ میں تبدیلی کر کے اُسے دور دیوار کے پاس کھڑا کر دیا گیاتھا تا کہ دور سے سب کو دیکھ دیکھ کر وہ کھیل کو تھوڑا سمجھ بھی لے۔۔۔ اچانک ایک لڑکے نے زور دار شاٹ لگائی گیند ہوا میں بہت اوپر تک بلند ہوئی اور ۔۔۔ بد قسمتی سے گیند سیدھی اُسی کی طرف آ رہی تھی گیند کے گرنے سے پہلے کے چند ثانیوں میں وہ بار بار اپنے تصور میں اپنی سخت سے مزاج والے لمبے تڑنگے لڑکے والی تصویر کو لاتا لیکن اگلے ہی لمحے اُس کے ابا کی آواز اُس کے کانوں میں گونجتی اور ایک معصوم سا ڈرا سہما ہوا مخنث سا لڑکا اُس کے انکھوں کے سامنے آ جاتا ۔۔۔ گیند اُس کے ہاتھوں کو چھو کر زمین پر گری اور تیزی سے دوسری طرف نکل گئی تھی وہ گھبرا کر اُس کے پیچھے بھاگا وہ پہلے بھی یہی محسوس کیا کرتا تھا لیکن اُس دن اُسے یقین ہو گیا کہ گھٹنوں سے اوپر اُس کا جسم بھاری اور عورتوں کی طرح الٹی صراحی جیسا ہے اور گھٹنے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں وہ تیزی سے نہیں بھاگ پا رہا تھا۔۔۔ گیند کے ساتھ ساتھ وہ بھی میدان سے باہر نکلا اور بستہ اُٹھا کر ایک طرف چل پڑا تھا اُسے بہت دکھ ہو رہا تھا کہ اُس نے کرکٹ کھیلنے کی خواہش کیوں کی اور کیوں فضول سے جسم اور فضول سی شخصیت والا ہو کے دوسرے اچھے اچھے لڑکوں جیسا بننے چلا تھا۔


وہ پیلی پیلی دھند میں لپٹا ہوا گھر کیطرف چل پڑا تھا۔


ایک دن سکول سے آتے ہوئے اس نے اپنے ایک نئے دوست جو اُسے بہت اچھا لگتا تھا سے دبے دبے انداز میں کہاتھا 


میں کچھ دیر تم سے تھوڑا آگے چلتا ہوں تم غور سے دیکھ کر بتانا میں کیسے چلتا اور کیسا لگتا ہوں


دوست کو اسکی بات کی جیسے سمجھ نہ ائی ، وہ ہنسنے لگا تھا ارے یار کیا کہہ رہا ہے کیا دیکھوں، کیا مجھے پیچھے سے اپنی پیٹھ دکھا رہا ہے، وہ جھینپ گیا تھا۔ لیکن بات بنانے کے لئے اُس نے جواب دیا نہین یار میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ میں ابھی تک لڑکا ہی ہوں یا مرد بن گیا ہوں ، اُس کا دوست ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا اور وہ گلی میں ارد گرد دیکھنے لگاتھا کہ کہیں کوئی اور تو انھیں نہیں دیکھ رہا، کچھ دیر بعد دوست نے رازدارانہ انداز میں اُس کے کان میں کہا، اگر اس بات کا پتہ لگانا ہے تو تجھے ایک طریقہ بتاتا ہوں ، پتہ بھی چل جائے گا اور تجھے اتنا مزا آئے گا کہ مجھے دعائیں بھی دے گا۔ 


نسخہ سنکر پہلے تو اُسے ڈر لگا تھا لیکن پھر لڑکے کے مذاق اُڑانے پر وہ بہت حیران ہوا کہ اتنا آسان طریقہ اور وہ بھی بالکل مفت اُسے خود کیوں پتہ نہ تھا، اُسے خود پر غصہ آنے لگا تھا کہ شاید ابا ٹھیک ہی کہتے تھے اگر میری عادات بھی مردوں جیسی ہوتیں تو میرا دھیان خود بخود اس طریقے کی طرف جاتا ، اُسی سہ پہر ٹویشن جانے سے پہلے جب نہاتے ہوئے اس نے اپنے نئے دوست کا بتایا ہوئے طریقے سے اپنی رانوں کے بیچ خود کہ سہلانا شروع کیا تو اس کی سسکاری نکل گئی تھی اُسے لگا تھا جیسے وہ سائیکل پر ہے ، اور ہوا میں اڑا جا رہا ہے، اس نے جسم کے مزے سے زیادہ اس احساس کے مزے کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں کہ وہ مرد ہے۔۔۔ اچانک بہت قریب سے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی، اس نے آنکھیں کھولیں تو خوف سے لرز گیا تھا ، ابا غسل خانے کے پردے کے ساتھ سے گزر کر لیٹرین کی طرف جا رہے تھے۔ سارا مزا خوف اور شرمندگی میں بدل گیا تھا، اُس نے جلدی جلدی ہاتھوں سے صابن کا جھاگ صاف کیا، کپڑے پہنے اور ٹویشن چلا گیا تھا۔


اب اس کا دل ہر روز ، ہر وقت نہانے کو چاہتا تھا، لیکن غسل خانے کی طرف دیکھتے ہی وہ اپنا ارادہ بدل دیتا۔


ایک دن ٹیوشن والے ماسٹر جی نے اُس سے اکثر کھویا کھویا اور اداس رہنے کی وجہ پوچھی تھی تو اُس نے انھیں دھند اور دلدل کے بارے میں بتایا تھا، وہ اُس کو اِس تکلیف سے نجات کا طریقہ بتانے کا وعدہ کرتے ہوئے اس کے سر اور کمر پر ہاتھ پھیرنے لگے، اُسے بہت سکون ملا تھا جیسے اُس دن ماں نہیں بلکہ ابا نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا ہو۔ ماسٹر جی نے دوسرے دن سب بچون کے جانے کے بعد اُسے پاس بٹھایا اور اس کی ہتھیلی غور سے دیکھتے ہوئے بولے تھے ، ہوں ، تمھاری چوری تو پکڑی گئی ۔۔۔۔ وہ سہم گیا تھا۔۔ لیکن ماسٹر جی میں نے تو صرف ایک بار۔۔۔ ماسٹر جی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا، ڈرو نہیں یہ تو سب مرد کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔۔۔لیکن تمہاری بات اور ہے، کیوں ماسٹر جی میری بات اور کیوں ہے کیا میں مرد نہیں ہوں۔۔۔ ماسٹر جی ہنس پڑے تھے، ابھی تم چھوٹے ہو اگر تم اکیلے میں کرو گے تو بہت نقصان ہو سکتا ہے اس لئے ہم تمہاری مدد کریں گے۔


اس کا دل ڈر رہا تھا، وہ جانتا تھا کہ کچھ بہت غلط ہو رہا ہے، لیکن چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہ بول سکا۔ اذیت ڈر سے زیادہ تھی اور ویسے بھی کسی بھی بات پر نہ کرتے ہوئے اور خاص طور پر اپنے سے بڑے کسی مرد کے سامنے نہ کرتے ہوئے اُس کی زبان بند ہو جاتی تھی اور ٹانگیں کانپنے لگتیں تھیں۔۔۔ اور پھر جب ماسٹر جی اُسے خود اپنے ہاتھ سے اسی طریقہ سے سکون دینے لگے جیسے اُس کے دوست نے بتایا تھا تو اُس کا ڈر قدرے کم ہو گیا تھا، ماسٹر جی اسے سینے سے لگاتے، اس کے ہونٹ اور گال چومتے اور اس کی گردن پر انگلیاں پھیرتے تو وہ آنکھیں موند لیتا ۔


ان چند راتوں کو وہ اپنی چارپائی پر ٹانگیں کھول کر بازو پھیلا کر سیدھا سویا تھا۔


کچھ دن بعد ماسٹر جی نے اُسے ایک نئے طریقے کے بارے میں بتایا جو اُسے بالکل بھی اچھا نہ لگا تھا لیکن وہ اب انھین کسی قیمت پر ناراض نہیں کر سکتا تھا، بادل نخواستہ وہ چٹائی پر الٹا لیٹ گیا، کچھ دیر بعد جب ماسٹر جی اٹھے تو اُس سے خود اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا، اُس کو خود کے بارے میں ایک بار پھر یقین ہو گیا تھا کہ وہ کچھ مختلف ہے کیونکہ وہ ایسا کرتا تھا تو خشک ہی رہتا تھا لیکن ماسٹر جی ۔۔۔۔۔۔ وہ نم آلود آنکھوںسے انھیں دیکھتا ہوا گھر چلا گیا تھا دوسرے دن وہ نہ سکول گیا تھا نہ ٹویشن لیکن تیسرے دن وہ پھر وہیں لیٹا ہوا تھا اور پھر جیسے یہ معمول بن گیا ، وہ روزانہ اپنے آپ کو ٹوکتا، خود سے لڑتا لیکن روک نہ پاتاتھا ۔


تب اُس کے سر میں دھند بہت کم آتی تھی اور دلدل بھی جیسے خشک ہو رہی تھی لیکن اب وہ اٹھے بیٹھتے چلتے پھرتے ایسے محسوس کرتا تھا جیسے اُس کی پیٹھ گیلی ہو، جیسے اُس کی قمیض پر کوئی دھبہ لگا ہوا ہو جیسے اس کے پیچھے کوئی اشتہار چسپاں تھا، وہ اکثر مڑ کر دیکھتا، کسی اوٹ میں جا کر ہاتھ لگا کر دیکھتا، غسل خانے میں جا کر انگلی لگا کر دیکھتا ، کبھی بھی کچھ بھی نہ ہوتا لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ محسوس کرتا جیسے کچھ لگا ہوا تھا۔


جیسے گوند سے کوئی اشتہار چسپاں ہو۔


وہ ابا سے ہار گیا تھا، اب اُسے ابا کی ساری باتیں سچی لگتیں اور سب نظریں با معنی معلوم ہوتیں تھیں۔ ایک دن وہ اپنے تصور میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک وہ چونک اٹھا ، وہ دوسرا لڑکا کہاں گیا ، وہ بے باک ، مضبوط اور دلیر


سا لڑکا کہاں تھا ۔۔۔۔۔ 


ابا سے نظریں چرانے کے لئے پہلے اُس نے گھر چھوڑا ، پھر شہر اور 


آج پندرہ برس بعد وہ امریکہ میں مقیم تھا اور اپنے نئے پارٹنر کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ وہ صوفے سے اٹھا اور دیوار پر لگی ماں کی تصویر کے فریم کو اتار کر اس پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ ۔

۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔




  • ‏‎Almas Haider‎‏، ‏‎Eqbal Hasan Azad‎‏، ‏‎Farrukh Nadeem‎‏ اور ‏‏21‏ دیگر‏ نے اسے پسند کیا ہے۔

  • Yousuf Aziz Zahid میرا لکھا افسانہ "ایک گزرا ہوا کل" کا بینر بھی بنا ڈالو

  • Zubair Sayaf جی حضور بن گیا ہے ...اس کا بینر بہت جلد پوسٹ کر دیا جاۓ گا

  • Yousuf Aziz Zahid اب شکر گزار لکھوں یا "مشکور"؟

  • Zubair Sayaf مشکور لکھ دیں اس کے بارے میں زیادہ دلیلیں ہیں   :):)

  • Yousuf Aziz Zahid شکر۔۔۔۔۔شاکر۔۔۔۔مشکور۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی میں تمھارا شکریہ ادا کروں تو لکھوں کہ میں تمھارا مشکور ہوں

  • Yousuf Aziz Zahid عبد ۔۔۔۔عابد ۔۔۔۔۔معبود۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس قاعدے کے مطابق معبود کے کیا معنی ہوںگے؟ذرا وضاحت کردو میری اصلاح ہوجائے گی

  • Aamer Ibrahim میرا کمنٹ غائب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا مجھے نظر نہیں آرہا ؟

  • Qurb E Abbas "ہارمون" اتنا کسا ہوا ہے کہ ایک جملہ نہ تو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی شامل کرنے کی گنجائش ہے۔
    Homosextuality پر لکھا گیا یہ افسانہ کردار کی افکار، نفسیات، تصورات، صلاحیتوں اور معاشرتی رویوں کو بخوبی بیان کرتا ہے۔
    حتیٰ کہ کردار کے ایکشنز سے لے کر اس کے 
    قدرتی فارمیشن کو بھی بہت عمدہ طریقے سے جسٹیفائی کیا گیا ہے۔
    ایک پہلو ہمارے معاشرتی رویوں پر روشنی ڈالتا ہے اور دوسرا ایک کردار کی بے بسی پر۔

    Child Sexual Abuse کا کارنر اس افسانے کے قد کو اور بڑھا دیتا ہے۔ جس طرح سے شخصیت میں سے flashbacks (جو کہ child sexual abuse کا نشانہ بننے کے نتیجے میں نفسیات کا میجر گھاؤ بھی ہے) کو لے کر افسانہ شروع کیا گیا ہے، جو کہ بہت ہی کمال کی ابتداء ہے۔
    اختتام بھی اتنا فطری ہے کہ افسانہ قاری کو "واہ" کہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
    آغاز تا اختتام قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھنا اس کی بڑی کامیابی بھی ہے۔

    سوچنا تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کے ایک غلیظ انسان کو امریکہ میں دھکیل کر اپنا "پاک" معاشرہ غلاظت سے بچا لیا۔۔۔ یا ہماری سر زمین نے مستقبل کے ایک عظیم "پینٹر، فلم ڈائریکڑ، کروگرافر، یا خطاط کو کھو دیا۔۔۔؟
    ہارمونز یا ذہنی فارمیشن ایک قدرتی عمل ہے۔ اگر نقص ہے تو ذمہ دار قدرت ہے۔ سزا یا طعنے فرد کیوں سنے۔۔۔؟
    لیکن قدرت جہاں شخصیت کے اندر کنفیوژن پیدا کرتی ہے وہاں حساسیت بھی عروج پر ہوتی ہے۔

    Sexual orientation انسان کا ایک پرسنل مسئلہ ہے، ہر انسان کو جسنی تسکین کے لیے اپنے جیسے بہت مل جاتے ہیں۔ عام انسان کو ایسے افراد سے کسی خطرے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیئے۔ بس یہی سوچ لیا جائے کہ ان لوگوں میں بہت کچھ عام لوگوں کی نسبت اچھا بھی پایا جاتا ہے۔ سو انھیں معاشرے میں جگہ دینے میں کوئی قباحت نہیں۔
    بے شک قمر سبزواری صاحب سے ایسے ہی خوبصورت افسانے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
    مبارک ہو۔۔۔ شاد و آباد رہیئے۔

  • Nasir Siddiqi عنوان نے افسانے کو کچھ ایسی باتوں سے بچا لیا ہے جو شائد کچھ لوگوں کو پسند نہ آتیں۔بہت ہی بہترین افسانہ ہے۔اس موضوع پر لکھے گئے افسانوں میں اسکا ذکر ہوتا رہے گا۔

  • Nasir Siddiqi زبیر سیاف! بھی مبارکباد کے حقدار ہیں۔

  • Qurb E Abbas سر ناصر اب بھی محض عنوان سے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ 

  • Qamar Sabzwari عامر ابراہیم بھائی بینر کی وجہ سے زبیر سیاف بھائی نے پوسٹ کو ڈیلیٹ کر کے دوبارہ لگایا ہے شاید اس لئے آپ کا کامنٹ نظر نہیں آ رہا، لیکن آپ سے تو تفصیلی رائے اور رہنمائی کی توقع ہے۔

  • Yousuf Aziz Zahid قمر سبزواری کا ایک افسانہ :حرافہ" میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں۔وہاں بھی جنسی نفسیات کو بنیاد بنا کر بڑی مہارت سے کردار نگاری کی گئی۔ہارمون اپنے عنوان کی وسعت اور "نزاکت" کے باعث زیادہ توجہ کا طالب تھا۔اس موضوع پر لکھتے ہوئے بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوتا ہے۔لیکن قمر نے بہت سنبھال کر اور پوری چانکدستی سے موضوع کو نبھایا ہے۔کرداروں کی نفسیات کو بھر پور انداز میں ابھارتے ہوئے اس "غلاظت" کو بھی سامنے لائے ہیں جو "استاد جی" کے کردار میں موجود ہے۔بچے کے ماں باپ کے کردار اگرچہ دب گئے ہیں لیکن بچے کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ایک اور کردار جو ہاتھ ہوا میں لٹکا کر کمر لچکا کر چلتا ہے۔۔۔اس کو مزید ابھارنا میری زاتی رائے میں زیادہ بہتر ہوتا۔آغاز میں ٹیلیویژن پر جو خبر چل رہی ہے اس کا افسانے سے بہت گہرا تعلق ہے مگر معذرت خواہ ہوں یہاں قمر کے قلم کی جولانی نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔وہ پکڑ نہیں جو افسانے کے آغاز میں ہونی چاہیئے

  • Nastaran Fatihi مجھے اس طرح کے موضوعات سخت نا پسند ہیں،اس لئے سوچا اس پر تبصرہ نہیں کرونگی .مگر کیا اپنی آنکھیں بند کر لینے سے معاشرے کی برائیاں دور ہو جاتی ہیں ،اس لیے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ قمر سبزواری جس موضوع کو اٹھا لیں اسے اس مہارت سے نبھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کوئی جملہ کیا ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑ دیتے ہیں افسانے میں نفسیات کا اتنا گہرا مشاہدہ ہوتا ہے کہ افسانے کا حقیقی ہونے کا گمان گزرتا ہے ،قرب عباس کی آرا سے متفق ہوں اور آپکی افسانے پر دسترس کی قائل بھی .

  • Kausar Jamal میں بس سوچتی ہی رہ جاتی ہوں کہ قمر سبزواری کے افسانے پر ڈھنگ سے تبصرہ کروں، لیکن قلم اٹھنے کا مرحلہ نہیں آتا۔ حرافہ کے بعد اب یہ افسانہ ۔۔۔۔ قرض دوگنا ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ اتنے نازک موضوعات پر اردو میں لکھنا اور وہ بھی افسانے کی صورت میں، اتنا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ قمر سبزواری کے لیے یہ کام مشکل بھی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو عام انسان ہی حقوق اور عزت کے معاملے میں بہت محروم ہے، تو اس طبقے کی دربدری اور تنہائی کا کیا کہنا جسے اس کی طبی ساخت کے ادھورے یا عجیب ہونے کی وجہ سے خون کے رشتے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور تو اور آسمانی صحیفے بھی ان کے حق میں گواہی دینے کے باب میں خاموش ہیں ۔ اس طبقے کی زندگی اور اس کے عذابوں، خوابوں پر افتی نسیم مرحوم نے بھی اچھے افسانے لکھے ہیں۔ سچ کہوں تو ان افسانوں میں احساس کی گہرائی کے ساتھ ساتھ قاری کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسی تحریریں ادبی ہونے کے علاوہ ہیومن رائٹس سے متعلق احساس جگانے کا کام بھی کرتی ہیں۔ ۔۔۔۔ زیرِ نظر افسانے کی ادبی قدوقامت پر کچھ احباب نے اوپر اچھی رائے دی ہے جس سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ ذاتی طور پر کچھ ڈھکے چھپے معاملات کا واضح بیان مجھے ادب میں پسند نہیں آتا۔ حرافہ میں تو یہ بات کچھ زیادہ سنگین لگی۔ یہ افسانہ اس لحاظ سے قدرے بہتر ہے ۔ پھر بھی مصنف زبان و بیان پر اپنے عبور سے ایسے معاملات کو بلیک اینڈ وائٹ کی بجائے سرمئی علامتوں سے بیان کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔

  • Yousuf Aziz Zahid مجھے تو آپ کے تبصرے پڑھ کر بہت سکوں ملتا ہے۔۔۔۔۔بعض باتیں کہنے سے رہ جاتی ہیں کوثر۔۔۔۔۔وہ یا تو آپ نے پہلے ہی کہی ہوتی ہیں یا بعد میں کہہ دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔پر وہ جلیبی والی بات۔۔۔۔۔کیا بہت سیدھی ہوتی ہے یا ٹیڑھی کھیر؟ویسے ٹیڑھی کھیر کھانے کا اتفاق ہوا آپ کو کوثر جمال رعنا؟

  • Kausar Jamal زندگی تو خود ٹیڑھی لکیر بھی ہے اور ٹیڑھی کھیر بھی، اور آپ کسی ’’زندہ‘‘ سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں؟ ۔۔۔ 

  • Yousuf Aziz Zahid تو کیا اس سوال کا جواب پانے کے لئے مرنا پڑے گا؟

  • Yousuf Aziz Zahid مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایکBAR ہوتا

  • Kausar Jamal ارے کیا ہو گیا آپ کو، میں نے جواب دے بھی دیا اور آپ کو زندہ ہوتے ہوئے بھی سمجھ نہیں آیا؟ 

  • Yousuf Aziz Zahid آج کی پہیلی۔۔۔۔۔۔مضطر اکبر آبادی کی مدد درکار ہے

  • Farrukh Nadeem افسانہ نگاری کی روایت میں حقیقت نگاری ہمیشہ اپنی شکل بدلتی رہی ہے۔ جو حقیقت نگاری پہ ایک سوال بھی ہے، کہنے کو تو ہر لکھاری کی اپنی حقیقت ہے لیکن جو حقیقت نگاری قمر سبزواری پیش کرتے ہیں وہ ایک طرف تو بھیانک ہے اور دوسری طرف ہمارے گلٹ کو چیلنج کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے کے عام قاری کی خواہش یہ بھی ہے کوئی اجلا اجلا سا،ستھرا، رومانوی سا موضوع پیش کیا جائے اور زبان ایسی استعمال کی جائے جو تہزیبی اور روایتی لگے، بھلے کردار کوئی بھی ہو۔ مطلب یہ کہ حقیقت نگاری ہماری خواہش کے تابع ہو، اسی لئے مجھے ذاتی طور پہ قاری کی تعبیر مشکوک لگتی ہے۔ وہ تعبیر بھی اپنے ماحول اور نظریاتی جبر سے کرتا/تی ہے۔

  • Farrukh Nadeem ہارمون افسانہ پڑھا، کس طرح ایک بچہ اپنی ذات اور شناخت دریافت کرتا ہے اور معاشری روئے کس طرح اس کی راہنمائی کرتے ہیں،،، خوب لکھا،،،، اور ایسا لگا جیسے انسانی جسم میں ہارمونز انسانی زندگی کنٹرول کرتے ہیں،یعنی انسانی جبلت انسانی شعور سے برتر ہے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے،،،اس افسانے کے متن سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بچے کا مسئلہ کیا ہے، اس کا جنسی میلان کس طرف ہے، مجھے یہ بھی حیرت ہوئی کہ جب یہ بچہ اپنی مرد زات کو دریافت کرتا ہے تو اس کا میلان مخالف جنس کی طرف کیوں نہیں ہے،،،،یہاں یہ بھی مطلب نکلتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ راہنمائی حاصل کرتا ہے وہ تو پہلے ہین ہم جنس پرستی کا حصہ ہیں، اس لئے انہہوں نے اس کی جنسی انرجی کا رخ بدل دیا۔ یعنی سماج جنسی اور نفسیاتی رویے متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،سو یہاں ہارمون آزاد نہین،،،،مشروط ہے،،،

  • Qurb E Abbas سر فرخ ندیم میں آپکی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ مگر۔۔۔ افسانہ کردار کے جنسی میلان کو بہت عمدہ طریق سے جسٹیفائی کر رہا ہے۔
    جو آپ نےبات کی وہ ایک الگ نظریہ ہے، ہوسکتا ہے جو اس افسانے میں بیان کیا گیا ہے کوئی اس سے اتفاق نہ بھی کرے۔

  • Yousuf Aziz Zahid بہت اچھے سوالات اٹھائے ہیں آپ نے فرخ ندیم۔۔۔۔۔ان پر نفسیاتی حوالوں سے بات بہت ضروری ہے

  • Farrukh Nadeem افسانے کا اسلوب بھی تھوڑا مختلف ہے، اس میں شعوری زندگی کے ساتھ لاشعوری زندگی بھی شامل ہے جس سے کردار کی باطنی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایسے افسانوں پہ ہر قاری رائے نہیں دے سکتا اور ایسے موضوعات پہ بحث میں خواتیں کی شمولیت مشکل ہے اس لئے ،میرے مطابق، ایسے افسانوں میں علامتی پیرائے استعمال مین لانے سے سہولت ہو جاتی ہے۔ مصنف اگر سب کے لئے سہولت رکھے تو اچھی بات ہے۔

  • Farrukh Nadeem قرب عباس اپ کا تبصرہ بہت اچھا لگا،،،جو اپ نے پہلے کیا،،،اب جہاں تک نفسیات مین ہارمون کی کلی آزادی کا تعلق ہے تو اس پہ میرے تحفظات ہیں

  • Yousuf Aziz Zahid میں آپ کی اس رائے سے متفق ہوں کہ بعض معاملات میں مین حقیقت نگاری سے گریز اور استعاراتی اظہار افسانے کے حسن میں اضافہ کرتا ہے

  • Farrukh Nadeem کل مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی،،،ریڈیو پاکستاں اسلام آباد پہ افسانے کے حوالے سے ایک گفتگو میں شرکت کر کے جب میں علی اکبر ناطق کی بک شاپ پہ کچھ کتابیں دیکھ رہا تھا تو دو کتابیں ملیں،،،ایک Kausar Jamal کی جہانِ دگر اور دوسری Nastaran Fatihi کا ناول لفٹ،،،بہت خوشی ہوئی،،،،

  • Farrukh Nadeem میری ذاتی لائبریری فورم پہ موجود لکھاریوں کی تصانیف کے بغیر ادھوری ہے،،،،

  • Haider Ali اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتا ہوا افسانہ...داد و تحسین

  • Abrar Mojeeb ہارمون افسانے میں ہرموفروڈائٹ یا عورت نما مرد کی تشکیل میں خاندان ، سماج اور ماحول کا کردار سامنے لانے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن یہ تمام چیزیں اتنی توانائی سے پیش نہیں کی گئی ہیں کہ ایک شخصیت کی کایا کلپ ہوسکے، مثلا" باپ کا کردار جو جابرانہ نظر آتا ہے، استاد کا کردار جو اس کا جنسی استحصال کرتا ہے وغیرہ ۔ ویسے یہ افسانہ پاکستان کے افتی نسیم کی شخصیت کےعناصر ترکیبی سے ظہور پذیر ہوا ہے یا کم از کم افسانہ نگار کے ذہن میں افتی کی شخصیت ضرور رہی ہوگی، معنویت کی سطح پر مجھے ایک خلاء کا احسا س ہوا۔ ہاں بیانیہ بے حد کسا ہوا، قصہ گوئی کے فن کے مطابق بے حد دلچسپ ہے۔ فرخ ندیم صاحب نے نبض پکڑنے کی کوشش کی ہے کہ ہارمون کی تبدیلی سماجی اور نفسیاتی دروبست سے مشروط ہے کہ نہیں یا صرف بایو کیمیکل پروسس کا حصہ ہے۔

  • Noor Ul Ain Sahira میرا بھی نسترن والا حال ہے ایسے افسانوں پر مجھے تبصرہ کرنا نہیں آتا سو زیادہ تر چپ ہی رہتی ہوں لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ فرخ ندیم اور ابرار مجیب کے تبصرے سے مکمل اتفاق ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔وہ تو چھوٹا سا بچہ تھا ۔اسکو تو معلوم ہی نہیں تھا ٹھیک کیا ہے اور غلط کیا۔ پہلی بار جو معلوم ہو گیا اسی کو حاصل زندگی بنا کر چل پڑا۔ ضروری نہیں کہ یہ ہارمونز کی بات ہو بلکہ صرف اور صرف غلط ماحول کا اثر بھی ہو سکتا ہے ۔ کم سے کم یہ افسانہ تو یہی پیغام دیتا ہے کہ ماحول نے اسکو ایسا بنا دیا ۔اسکا ہارمونز سے تعلق نہیں تھا اس لحاظ سے افسانے کا عنوان ہی جسٹفائی نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ ہارمونز کی بات تھی تو تب اسکو زیادہ واضح اور زیادہ کلئیر ہونا چاہیئے تھا۔

  • Haider Ali
    The question is: Do hormones play any role in development of hetro or homo sexual behaviour ????

  • Haider Ali ہم جنس پرست مرد اور عورت میں ہارمونز، نفسیاتی، طبی وجوہات پر اگر کچھ دیر کے لئے فل سٹاپ لگایا جائے اور اس افسانے کے کردار کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ کردار مکمل مرد نہیں ہے اور اس کا قدرتی جھکاؤ مردوں کی طرف ہے...مگر یہ بات سمجھنے میں وہ ک...See More

  • Abrar Mojeeb یہ بات بحث طلب ہے اور سائنسی سطح پر اسے ایک مفروضے کی حیثیت حاصل ہے کہ ہارمونز کا جنسی میلان سے کوئی گہرا تعلق ہے۔ ڈک سواب اور فالگیوراس نے تو سماجی حالات کے اثرات سے بھی انکار کیا ہے۔ بعض جانوروں خاص طور سے دودھ پلانے والے جانوروں پر تجربات کرکے یہ د...See More

  • Qamar Sabzwari تمام احباب کا آراء اور تنقید کے لئے شکر گزار ہوں۔

  • Noor Ul Ain Sahira ارے ہاں یاد آیا یہ تو لکھا ہی نہیں کہ قمر سبزواری لکھتے بہت اچھا ہیں۔ افسانے لکھنے کا ڈھنگ۔ اسلوب بیانہ بہت ہی پرفیکٹ اور جاندار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔میرا اعتراض صرف انکے لکھے افسانے کے ایک پوانٹ پر ہے اونلی۔۔۔۔

  • Qamar Sabzwari افسانے کا عنوان "ہارمون" ہے اور یہی مناسب ترین عنوان ہے۔ ایک مضمون اور افسانے کے عنوان کے انتخاب اور فہم میں فرق ہوتا ہے، مضمون کا عنوان عام طور پر نفس موضوع کا خلاصہ ہی ہونا چاہئے لیکن انشائیے ، فکاہیہ مضمون اور افسانے کا عنوان براہ راست موضوع کا اشارہ یا اُس کا ایک طنزیہ معکوسی پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ بہت واضع انداز میں افسانے کا مرکزی کردار جب ٹی وی پر ایک خبر کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ہم جنس پرستی کو خالصتا ہارمونز کی کارستانی قرار دینے والے رپورٹر پر طنزیہ انداز میں ہنستا ہے ، کیونکہ اُس کی نظر میں یہ ایک نسبتا غیر اہم وجہ ہو سکتی ہے جبکہ اُس کے تجربے یا علم کے مطابق اس وجہ کے علاوہ کے علاوہ ایک بڑی وجہ سماجی رویے ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ افسانے کا ہیرو ایک مریض نہیں ہے اور یہ افسانہ ایک کیس سٹڈی بالکل نہیں ہے وہ قطعا مخنث یا نا مرد یا زنخا نہیں ہوتا ۔ ہر بچہ عمر کے اس حصے میں جنسی تبدیلیوں یا بلوغت کے دور سے گزرتا ہے اور اُس میں اگر خارجی دباؤ بے جا مطالبات کرے تو جینڈر آئڈینٹیٹی کراءسس کا شکار ہو جانا ایک فطری عمل ہے جو کہ تیسری دنیا میں کثرت سے ہوتا ہے۔ بچہ بار بار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے وہ ایک "سخت سا" مرد بننا ہی پسند کر رہا ہے ، وہ جب اپنے جسم کا "معائینہ " کرتا ہے تو اُسے کبھی تو کچھ خراب نظر آتا ہے اور کبھی سب کچھ ٹھیک یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بالکل درست ہوتا ہے لیکن اُس کے ذہن کو یہ یقین دلایا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ "خاص" ہے۔ ایک خیال یہ سامنے آیا کہ بچے کے ماحول میں موجود کردار اُس کے کردار کی تشکیل میں جو کردار ادا کرتے ہیں وہ واضع نہیں ہیں اس بات پر مجھے حیرت ہوئی، کیا باپ کا ایک ایک جملہ اور فقط چند جملے کافی نہین ہیں اُس کی پوری شخصیت کے اظہار کے لئے کیا ماں کا خاموش کردار کافی نہیں ہے اُس کے حصے کی نشاندہی کرنے کے لئے۔ گلی میں مارنے والے لڑکے کا اور استاد جی کا کردار ہم جسن پرست نہیں ہیں اور نہ بچے کا والد ہم جنس پرست ہے وہ تو عام معاشرتی رویوں کی عکاسی ہے وہ معاشرہ جو جہالت کے مارے اور عدم تحفط کا شکار افراد کا مجموعہ ہے ماسٹر ہم جنس پرست ہے لیکن شاطر اور متحمل شخص ہے وہ موقع دیکھ کر فائدہ اٹھا تا ہے اور بچے کا رویہ اس کا ایک ایک مکالمہ وہاں بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچہ بالکل نارمل ہے لیکن نفسیاتی دباؤ اور پیار و تعریف کی ضرورت اُس کو مفلوج کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ایک بات یہ بھی رہی کہ اگر وہ نارمل تھا اور اختتام پر جب اُسے اپنی شخصیت کا شعور ہو گیا تو وہ کیوں اپنے "پارٹنر " کے ساتھ رہ رہا تھا اور یہ کہ اُس کا رجحان جنس مخالف کی طرف کیوں نہ ہوا تو افسانے کی ابتداء میں اُس کے طنزیہ ہنسنے کی یہی تو وجہ تھی کہ "ہارمونز" سے زیادہ طاقتور اثر نفسیاتی عوامل کا ہے جن کے اثرات فطرت ثانیہ بن کر شاید جبلت کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جہاں تک علامت کے استعمال کا تعلق ہے تو میں ذاتی حیثیت سے علامت کو ادب میں نظریاتی پروپیگنڈے سے اجتناب یا غیر معروضی معاملات کے ابلاغ کے طور پر ایک خوبصورت ذریعہ خیال کرتا ہوں نہ کہ حقیقت نگاری کو برقعہ پہنانے کے اہتمام کے طور پر ۔ اس افسانے کے اسلوب کو جو شروع سے لے کر آخر تک نفسیاتی گرہیں کھولنے اور داخلی کیفیات کے بیان پر مرکوز رہا ہے واقع نگاری کے زیر اثر کہنا زیادتی ہے۔

  • Abrar Mojeeb قمر بھائی بہت تفصیل کے ساتھ منطقی استدلال کا استعمال کرتے ہوئے افسانے کے تعلق سے آپ نے معروضات پیش کئے ہیں، اس پر مزید گفتگو ہوگی انشا اللہ۔ لیکن اختصار کے ساتھ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں باپ ہمیشہ سخت گیر شخصیت کا حامل ہوتا ہے جبکہ ماں بے حد نرم ، بچوں پر جان نچھاور کرنے والی ہوتی ہے۔ دو شخصیتوں کے اس تضاد کے درمیان زندگی کرنے والے بچے کا جنسی میلان ممکن ہے تبدیل ہوجائے لیکن اسے کلیے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، افسانہ کے دوسرے کردار جو اس بچے کا توانا مرد میں، یا ایک آہنی شخصیت بننے کی راہ میں حائل ہیں نفسیاتی جدوجہد کی ایک پیجیدہ صورتحال کی تخلیق میں معاون نظر نہیں آتے جسے قاری فوری طور پر قبول کرلے۔ شاید اس کی ایک وجہ واقعاتی تصادم کی کمی ہو۔ گو کہ ہم جنس عیار استاد کی کارستانی پورے افسانے میں ایک نقطہء عروج کے طور پر نظر آتی ہے، یہی وہ بنیادی واقعہ ہے جو مرکزی کردار کی شخصیت کی کایا کلپ کا جواز فراہم کرتا ہے۔

  • Haider Ali سماجی عوامل کی وجہ سے homosexual ہو جانا کچھ ہضم نہیں ہو رہا کیونکہ یہ ایک ایسا رجہان ہے کہ جسے زبردستی کسی انسان میں inject کرنا ممکن نہیں تا وقتیکہ اس کی tendency فرد میں موجود نہ ہو.

  • Qamar Sabzwari
    Homosexuality koi tendency nahi hey yeh inject hi hoti hey physically or psychologically

  • Haider Ali قمر صاحب آپ کی رائے قابل احترام.
    نظر ثانی کی درخواست ہے 

  • Yousuf Aziz Zahid جب تخلیق کار اپنی تخلیق کا تشریحی نوٹ لکھتا ہے تو پھر ایسی الجھن جنم لیتی ہے۔۔۔۔۔میں انتہائی ادب سے کہوں گا کہ ٹی وی کی خبر دیکھ کر مرکزی کردار طنزیہ انداز میں اسلئے ہنسا کہ اسے یہ سب مضحکہ خیز لگا۔۔۔۔۔۔۔۔اس بات کی کہیں کوئی وضاحت نہیں

  • Haider Ali جب افسانہ اپنی perception کے مطابق پڑھا تو کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا اور جب مصنف نے تشریح کی تو سوال پیدا ہو گیا..یہ بھی خوب رہی: )

  • Qureshi Manzoor تکنیک و تاثر کے حوالے سے ڈاکٹر کوثر جمال صاحبہ کے کمنٹس سے اتفاق هے.
    زبان و بیان کی موزونیت اور نامحرم موضوع کا انتخاب سر قمر سبزواری کے خود پر اعتماد کا اظہار هے.
    هم جن رویوں سے نفرت کرتے هیں جس کیطرف سر قرب عباس نے اشارہ کیا هے اس میں بعض اوقات انسان
    ...See More

  • Kausar Jamal افسانہ نگار کے تشریحی کمنٹ نے اور تو کچھ نہیں البتہ یہ ضرور ثابت کیا کہ تخلیق لکھے جانے کے بعد ایک علیحدہ، آزاد نامیاتی تشخص بنا لیتی ہے۔ چنانچہ پڑھنے والوں نے اس افسانے کو جس طرح سمجھا ہے وہ اس تشریح سے مختلف ہے جو افسانہ نگار نے کی ہے۔ میں افسانہ نگار سے زیادہ یہاں مبصرین کے پرسیپشن سے متفق ہوں۔ ’’ہارمونز genes ہی کا ایکسپریشن یا اظہار ہیں‘‘ قرشی منظور صاحب نے درست کہا۔ حیدر علی بھی افسانے کی تفہیم میں صحیح جگہ پر نظر آتے ہیں۔ قمر سبزواری کی یہ بات ‘‘ بحث طلب ہے۔Homosexuality koi tendency nahi hey yeh inject hi hoti hey physically or psychologically۔ یہاں انجیکٹ کی بجائے لفظ inbuilt ہونا چاہیے۔ کراس جینڈر ہونا فرد کی جینیاتی تعمیر کا حصہ ہوتا ہے۔

  • Kausar Jamal فرخ ندیم نے بہت خوب لکھا: ’’جو حقیقت نگاری قمر سبزواری پیش کرتے ہیں وہ ایک طرف تو بھیانک ہے اور دوسری طرف ہمارے گلٹ کو چیلنج کرتی ہے۔‘‘

  • Ali Mirza بلا شبہ قمر سبز واری بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن مجھے یہ افسانہ "حرافہ" سے کمزور لگا ہے کہ ہم جب ایک رائٹر کی اچھی تحریر پڑھتے ہیں تو اس سے اگلی تحریر اور زیادہ مضبوط چاہتے ہیں___اس افسانے کے پیچھے مجھے تنہائی نظر آئی ہے صحرا نوردی میں برہنا پاؤں نظر آۓ ہیں یا اس سوکھے ہوۓ نایاب پودے کا خیال آیا ہے جس باغباں نے دوسرے پودوں کے ہمراہ کیاری میں تو رکھ دیا مگر اسے یکسر فراموش کر دیا__ دھوپ تھی بارش تھی آندھی تھی یا کوئی طوفان مگر اس کے وجود پر تحفظ فراہم کرتا ہوا کوئی ایسا مضبوط سہارا نہ تھا جو اس کی نشونما میں اس کی مدد کر پاتا

  • Qamar Sabzwari علی مرزا صاحب آپ نے تو اس افسانے کو حرافہ سے مضبوط ثابت کر دیا جس عمدہ طریقے سے آپ تک اس کی تفیہم ہوئی ہے میری دعا ہے کہ مریے سب افسانے کم از کم اتنے "کمزور" تو ضرور ہون۔ بہت عنایت۔

  • Ali Mirza آپ پر سلامتی ہو سر آپ سدا یونہی زندگی کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالے کھڑے رہیں

  • Yousuf Aziz Zahid اسی لئے تو کوثر جمال۔۔۔۔۔۔افسانہ نگار کو کبھی اپنے افسانے کی تشریح نہیں کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں اور کبھی کبھی تو افسانہ کمزور پڑ جاتا ہے

  • Shaheer Shuja افسانے کو پڑھنے کے بعد اس پر کمنٹ کرنا مشکل تھا ۔۔۔ صرف داد دی جا سکتی تھی ۔۔ موضوع پر پرسیپشنز یا نظریات و مشاہدات کی بنا پر ہر قاری کا اپنا رد عمل ہوتا ۔۔ جیسا کہ اوپر تمام حضرات نے اظہار خیال کیا ۔۔۔۔۔۔ میں صرف داد دوں گا ۔۔ محترم قمر سبزواری صاحب کو ۔۔ اس سے پہلے آپ کا خرافہ پڑھا تھا ۔۔۔ اور اب یہ ۔۔۔ جنسی موضوعات اگنور ہوجاتے ہیں مجھ سے ۔۔ اسے پڑھنے کی وجہ صرف آپ کا نام تھا ۔۔۔۔ اور پڑھا پھر اس پر رد عمل بھی پڑھا ۔۔۔۔ آپ کا خیال ہم تک پہنچا ۔۔۔ ۔۔ آپ کو جنس پر دسترس حاصل ہے ۔۔ فرخ ندیم صاحب سے میں بھی اتفاق کروںگا ۔۔ کہ اس موضوع کو علامتوں اور استعاروں میں پیش کیا جائے ۔۔ اور ایک مثبت میسیج دیا جائے تو ۔۔ مجھ جیسا قاری بھی اس موضوع کو شوق سے پڑھے گا اور پھر قلم آپ کا ہو تو پھر تو بار بار پڑھے گا ۔۔۔ سلامت رہیں ۔۔۔۔

  • Eqbal Hasan Azad میں نے کہا تھا کہ جو افسانہ مجھے بہت زیادہ پسند آتا ہے اسے میںافسانہ نگار کی اجازت سے ''ثالث'' کے لئے منتخب کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔اگر وہ غیر مطبوعہ ہو تو۔۔۔۔۔ بھائی قمر سزوارQamar Sabzwari ۔

  • Naeem Baig قمر سبزواری بہت عمدہ ۔حقیقت نگاری کا ایک شاندار اسلوب۔
    دیر سے آنے پر بہت سی معذرت ۔۔۔۔
    مغرب کے سماجی سائنسدانوں کے ھاں اس بات پر ھمیشہ بحث جاری رھی کہ زیادہ تر لوگ ھومو سیکچوئیلٹی پر نفرت کا اظہار کیوں کرتے ھیں جبکہ دونوں طرف ایک ھی صنف ھے اور وہ مر
    د ھے۔ اس ھائپوتھیسز پر اکثریت کی رائے متفق ھے کہ جرمینل یا ایمبریو کے ممکنات تقاضوں کا آپس میں ملاپ دراصل مرد حضرات میں زیادہ ھے بہ نسبت خواتین کے۔ اسی لیئے لزبین کی تعداد جہاں آزادی میسر ھے وھاں بھی کم ھے۔ 
    ایڈورڈ ویسٹ مارک ۱۹۰۸ اسی جبلت کی تشریح کرتے ھیں جہاں سماجی حالات مرد بچے کی نشونما میں معمول پر رھیں اور والدین کی طرف سے انہیں مکمل جسمانی اور نفسیاتی تحفظ رھے ۔ 
    اسی طرح سگمنڈ فرائڈ ۱۹۰۵ کہتے ھیں کہ مرد کے ھومو سیکچوئیلٹی کے طرف رغبت صرف بائئولوجیکل یا ھارمونک وجوھات پر ممکن نہیں بلکہ وہ تمام اثرات جو اس مرد بچے کی نشونما میں خوف کے عناصر کو تقویت دیتے ھوں وہ دور نہ کیئے جائیں تو یہ رغبت برابر اپنے عروج پر آ جاتی ھے ۔ تاھم یہ بعد ازاں مانوس حالات میں یہ اپنی روش تبدیل بھی کر لیتے ھیں۔ اسے وہ ھوموفوبیا سے منسوب کرتے ھیں۔ اور جب دو ایسے عناصر یا اشخاص مخصوص حالات میں مل بیٹھتے ھیں تو ایسا ممکن ھے۔
    تاھم مکمل طور پر یہ ھارمونک رویہ ممکنات میں سے ایک ھے۔ جو میرے دوست فرخ ندیم نے کہا 
    ’’یہاں یہ بھی مطلب نکلتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ راہنمائی حاصل کرتا ہے وہ تو پہلے ہین ہم جنس پرستی کا حصہ ہیں، اس لئے انہہوں نے اس کی جنسی انرجی کا رخ بدل دیا۔ یعنی سماج جنسی اور نفسیاتی رویے متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،سو یہاں ہارمون آزاد نہین،،،،مشروط ہے ‘‘
    تاھم قمر سبزواری نے ایک کہانی کو جنم دیا اور اپنے شاندار اسلوبِ بیاں سے اسے طاقت بخشی اور اسے ایک کامیاب افسانے میں بدل دیا۔ 
    بہت سی داد ۔

  • Shaheer Shuja محترم سر نعیم بیگ صاحب ۔۔۔ عمدہ کلام فرمایا ہے آپ نے اس موضوع پر ۔۔ آپ جب لکھتے ہیں تو علم کا دریا بہتا ہے ۔۔ سلامت رہیں سر ۔۔۔۔

  • Qamar Sabzwari اقبال صاحب آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں۔ میں تو ثالث کو بھی اپنا ہی رسالہ سمجھتا ہوں۔

  • Qamar Sabzwari نعیم صاحب حرافہ کی بار آپ نے لکھا تھا کہ جنسی موضوعات پر لکھے گئے افسانے آپ کو ہانٹ نہیں کرتے اور آپ ان پر رائے دینا شاید مناسب نہیں سمجھتے، لیکن جب آپ نے رائے دی تو افسانے کے کئی پہلو روشن کر دیئے۔ خوش رہیئے آپ جیسے اہل قلم اور باذوق احباب کی وجہ سے ہی اس فورم اور اس صنف کی رونق برقرار ہے۔

  • Eqbal Hasan Azad شکریہ بھائی قمر سبزواری

  • Naeem Baig قمر سبزواری ۔۔۔آپ نے بالکل سچ کہا ۔ اس دفعہ بھی حالات ایسے ھی تھے لیکن کافی دنوں کے بعداپنے آپ کو ذھنی طور پر تیار کر کے جب میں نے افسانہ پڑھا تو ایک جملے نے مجھے مجبور کیا کہ میں کچھ عرض کروں ۔۔۔
    ’’ وہ ابا سے ہار گیا تھا، اب اُسے ابا کی ساری باتیں س
    چی لگتیں اور سب نظریں با معنی معلوم ہوتیں تھیں۔ ایک دن وہ اپنے تصور میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک وہ چونک اٹھا ، وہ دوسرا لڑکا کہاں گیا ، وہ بے باک ، مضبوط اور دلیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

    اسی فکری سوچ نے مجھے آپکے افسانے کے پرت کھولنے پر مجبور کیا ۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ جو انتہائی اھم بات ھے کہ آپکا اسلوب نہائت دلچسپ فکری فہم لیئے قاری کو مجبور کرتا ھے کہ وہ افسانے کے اندر جھانکے ۔ یہ صفت ھر لکھاری میں نہیں ھوتی ھے۔ خوش رھیئے

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...