Saturday, January 3, 2015

پیپلی دا بوٹا۔




رب کا نام لے کر کرمو نے گندم کی ڈھائی منی بوری ایک جھٹکے سے اٹھا کہ اپنے کندھوں پر رکھی اور آٹھ دس مکانوں کے اپنے چھوٹے سے گاؤں سے باہر نکل کر چکی کی طرف جانے والے رستے پر ہو لیا۔ کل کی پسوائی کا نمبرلے کر اور ابھی کے ابھی کچھ دانے پسوا کر رات کے لئے آٹا لے کر واپس بھی آنا تھا۔پکی سڑک پر پڑتے ہی اسے محسوس ہوا کہ رستہ لمبا ہے اور بوجھ زیادہ وہ پیپلی کی طرف سے ہو کر جانے والی پگڈنڈی پر ہو گیا۔ دوپہر ڈھل رہی ہے فضلو چاچا پیپلی کے نیچے اپنے منجے پر آچکا ہو گا اور اللہ دتہ اور پیجی تو پہنچ ہی چکے ہوں گے کچھ دیر دم لوں گا گپ شپ ہو گی اور پھر آگے چکی کی طرف نکل چلوں گا۔
ابھی وہ پیپلی سے دور ہی تھا کہ چاچے کی آواز اسے اپنی طرف کھینچنے لگی،

آ سجن گل لگ اساڈے، کیہا جھیڑا لایو ای ۔۔۔۔۔
ستیاں بیٹھیاں کجھ نہیں ڈٹھا جاگدیاں شوہ پایو ای۔۔۔
 قم باِذنی شمس بولے اُلٹا کر لٹکایو ای۔۔۔۔۔
عشقن عشقن جگ وچ ہوئیاں دے ولاس بٹھایو ای ۔۔۔
میں تیں کائی نہیں جدائی پھر کیوں آپ چھپایو ای۔۔۔۔۔
مجھیں آیاں ماہی نہ آیاپھوک برہوں ڈولایو ای۔۔۔

اللہ دتے نے بھاگ کر اُس کی بوری کو اپنے کندھوں پر لے لیا۔کرمو اور اللہ دتہ پیپلی کی چھاؤں میں پہنچے تو سب نے باری باری کرمو سے حال احوال پوچھا، پیجی نے چاچے فضلو کے منجے کے پاس گیلی مٹی پر رکھے گھڑے سے ٹھنڈے پانی کا کٹورہ بھر کے اس کے ہاتھ میں دیا اور ہاتھ کا پنکھا اس کے لئے رکھتے ہوئے ایک طرف ہو کر اسے اپنی جگہ پر بیٹھے کا اشارہ کیا۔ خوشیا ، پیجی، کالا اور اللہ دتہ چاچا فضلو کے شعروں میں کھوئے ہوئے تھے۔ چاچے فضلو نے حقے کا گہرا سا کش لیا اور کرمو سے بولا ، اچھا کیا پتر جو ادھر سے آگیا، پڑاؤ بھی منزل ہی ہوتا ہے۔ یہ درختوں کی چھاؤں بھی ایک دلیل ایک نشانی ہے۔

کالا جس کا اصل نام کمال دین تھا سامنے والے گاؤں کے چوہدری کا ٹریکٹر چلاتا تھا اور فارغ وقت میں چاچے کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا، دھوپ ہو یا بارش کالا سر پر خوب سا سرسوں کا تیل لگاتا اور دنداسہ ، کنگھا ہر وقت اپنی سامنے والی جیب میں رکھتاتھا ، کرمو کی بات سن کر حسب معمول خاموش نہ رہ سکا اور بولا،اوئے چاچا بھی ٹھیک ہی کہتا ہے پر تو نے سیدھی راہ چھوڑ کر اتنا لمبا پینڈا کیوں مارا،،،،،اوئے چپ رہا کر کھوتے دے پتر، سیدھے تو ڈور ڈنگر چلتے ہیں، فصلیں برباد کرتے ہوئے، باڑوں کو توڑتے اور منڈھیروں کو پھلانگتے ہوئے، منہ اٹھائے نہ دائیں کی فکر نہ بائیں کی پرواہ۔ انسان تو رستوں پر چلتے ہیں۔ پتر بوجھ اٹھایا ہو تو پڑاؤ ضروری ہوتا ہے، سنگ ساتھ راستے کی صعوبت کو کم او ر پڑاؤ منزل کی آگاہی کو بڑہاتا ہے۔ کالا اپناسا منہ لے کر رہ گیا۔

گہری عقابی نظروں، چوڑے چکلے سینے اور بھرے بھرے سڈول شانوں والا چاچا فضل دین گاوٗں کا بڑا تھا، بہت کھرج دار اور سریلی آواز میں ہیر اور قافی گاتا تھا، اپنے پھلوں کے پودوں اور سبزیوں کی کیاری کرتا ،حقہ پیتا رہتا یا اپنی شام لگی بید کی چھڑی سے مٹی کے ڈھیلے توڑتا رہتا اور گالیوں کی زبان میں نصیحت بلکہ بات کرتا۔ گاؤں کی مٹی میں مٹی ہونے، کھردرے ننگے منجے پر بیٹھے رہنے اور دو دو دن پیٹ بھر کھانا نہ کھانے کے باوجود چاچے فضل دین کی وضع قطع میں ایک بانکپن ایک نفاست تھی ، سرخ و سفید چہرے پر ایک جلال ایک زندگی موجزن رہتی ۔ اگر کبھی کوئی چاچے کے سامنے کہہ بھی دیتا کہ چاچا گالی بکنا تو اچھی بات نہیں ہے تو چاچا بڑاے اطمینان اور یقین سے کہتا، پتر میں گالی کب بکتا ہوں قسم لے لو جو میں نے آج تک کسی کو گالی بکی ہو اچھا بتاؤ وہ سامنے کیا ہے، چاچا گدھا ہے اور کیا ہے، اوئے پتر بری بات کسی کو گدھا کہنا کتنی بری بات ہے، پر چاچا وہ تو ہے ہی گدھا اب گدھے کو گدھا نہ کہیں تو بھلا اور کیا کہیں، اوے کملیو میں بھی تو یہی کہتا ہوں ، بس فرق اتنا ہے کہ میں گدھے کو گدھے کا پتر کہتا ہوں اب تم ہی بتاؤ کیا دنیا میں کوئی ایسا گدھا ہے جو گدھے کا پتر نہ ہو۔
 (جن قارئیں کی نظریں اگلی سطروں میں چاچے فضلو کا دین یا مسلک تلاش کرنے کی کوشش کریں گی ان سے پیشگی معذرت کیوں کہ انہیں مایوسی ہی ہو گی، ضروری نہیں کہ چاچا فضلو، سنی یا شیعہ ہی ہو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انسان ہوا ہو۔ ویسے بھی ،
جاتی نہ پوچھو سادھو کی، پوچھ لیجئے گیان۔۔۔۔مول کرو تلوار کا پڑی رہن دو میان۔۔۔)

چھوٹے سے گاؤں کے تمام لوگ، کھیت کھلیان، بیل بوٹے اور ندی نالے چاچے فضلو کی سادہ اور سچی مگر گہری باتوں میں کسی نہ کسی طرح رنگے ہوئے تھے ، ساون میں مٹی سے پھوٹنے والے سوندھی سوندھی بو کی طرح چاچے فضلو کی باتوں کا بھی ایک ہالہ تھا ایک سحر تھا جس نے گاؤں میں ہر ایک شے کو ایک انجانے سے بندھن میں باندھا ہوا تھا ۔ چاچے کی شخصیت میں مٹی جیسی سادگی اور گھاس جیسی عاجزی کے باوجود ماں کی طرح کا ایک تقدس بھی تھا۔ جب وہ ہیر گاتا یا کوئی کافی پڑھتا یا بابا بلھے شاہ کے اشعار تحت اللفظ ہی دور تک بچھے کھیتوں کو سناتا تو اس کی شخصیت میں دونوں رنگ اپنا جوبن دکھاتے، پاؤں میں بچھے ہوئے راستوں کی عاجزی بھی اور سامنے ایستادہ آسمان سے باتیں کرتے ہمالہ کے پہاڑوں کی شان و شوکت اور سر بلندی بھی۔ درختوں پر بیٹھے پرندے جیسے اس کے لہن و سوز میں کھو کر دم بخود ہو جاتے، افق گھڑے کی طرح اُس کی آواز کو گونج دینے لگتے اور زمین دف کی طرح اپنا سینہ اس کی لَے پر دھڑکانے لگتی۔
پیپلی کے اس بوڑھے بوٹے کے نیچے ایک بڑا سا منجا ، ایک ٹھنڈا گھڑا اور بہت سی یادیں ہر وقت پڑی رہتیں، دوپہر ڈھلتے ہی اللہ دتہ منجا پچھا تا، گھڑے کو دھو کر تازہ پانی سے بھرتا اور چاچا اپنے حقے کے ساتھ آ کر یہاں بیٹھ جاتا اور پھر شام تک کوئی نہ کوئی یہاں آتا جاتا رہتا۔

چاچا یہ وسیلہ کیا ہے واسطے کا کیا مقام ہے ۔کرمو نے اپنی چادر کے کونے سے ماتھے پر بچے پسینے کے قطرے صاف کرتے ہوئے دھیرے سے پوچھا۔چاچے کے دل کے دیئے میں جیسے کسی نے گھر کے گھی کا کٹورہ انڈیل دیا ہو۔ حقے کا گہرا سا کش لے کر دور کوئیں پر پانی نکالتی عورتوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا،اوئے پتر کیا تو نے کبھی کوئیں سے پانی نہیں نکالا یا کبھی سیڑھی لگا کر چھت پر دانے ڈالنے نہیں چڑھا، پتر وہ سوہنا اللہ عقل کو دماغ میں اور دماغ کو بدن میں ڈالے بغیر اپنے سامنے معلق کر کے بھی پرکھ سکتا تھا۔ یہ شعور اور مادے کا ملاپ اسی لئے کرایا گیا کہ باطن کو ظاہر کے بہانے اعتبار ملے ، میرے بچے ریت کے ذرے سے لے کر سورج کے کؤے تک کچھ بھی بے مقصد نہیں ہے یہ سب نشانیاں ہیں یہی اُس سوہنے کی آیتیں ہیں، تیری ماں نے تجھے کبھی کہا کہ جا سیڑھی پر دانے ڈال آ تاکہ خشک ہو جائیں لیکن تو چھت پر جانے کے لیئے پہلے سیڑھی کی طرف ہی بڑھتا ہے، کبھی کسی نے کہا کہ جا ڈول سے پانی لے آؤ ، ہم پانی کنویں سے ہی لاتے ہیں پر ڈول کے بغیر کنویں سے پانی نہیں نکلتا، ڈول کنویں کا حصہ نہیں ہماری محتاجی ہے، سیڑھی تو ہمارے لئے ہے چھت کو سیڑھی کی ضرور ت نہیں ۔

ایک کہوں تو ہے ناہی دو کہوں تو گاری۔۔۔۔۔ہے جیسا تیسا رہے کہے کبیر بے چاری
لیکن چاچا جب قران اور نبی موجود ہے تو کسی اور کی کیا ضرورت، کالے نے ڈرتے ڈرتے حسب عادت لقمہ دیا۔اوئے کملیا، جب اللہ موجود تھا اور شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب تھا تو پھر نبی کیوں بھیجتا رہا، اوئے اپنے ارد گرد غور کرو، یہ سب نشانیاں دیکھو، اندھے نہ بن جانا، دیکھو وہ سامنے ہمالہ کے پہاڑ وہ سوہنا فرماتا ہے کہ یہ میں نے زمین میں کیلیں گاڑی ہیں، پتر جب یہ پہاڑ موجود ہیں تو پھر یہ کھیتوں کی منڈھیریں کیوں، یہ ٹیلے ٹبے کیوں، یہ باڑیں کیوں، اوئے میرے چہلیو، وہ کیلیں پوری زمین کے لئے ہیں، وہ سامنے بندھا بند تمھارے گاؤں کے لئے ہے، یہ باڑیں یہ منڈھیریں تمھارے کھیتوں کے لئے ہیں۔ آسمان کے ہونے سے چھت کی ضرورت کب ختم یا پوری ہوتی ہے پتر اوئے۔

اتنے میں گاؤں کے مولوی صاحب اپنی سائیکل پر پیپلی کے پاس سے گزرنے والے رستے پر آتے دکھائی دیئے، کالا انہیں دیکھ کر کچھ متذبذب سا ہو گیا اور اللہ دتے کے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔ مولوی صاحب لڑکوں کی طرف دیکھتے ہوئے سلام کر کے گزر گئے، چاچے فضلو نے کالے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، پتر چڑیاں بازوں سے ڈریں تو کوئی نہیں ہنستا لیکن کوؤں سے ڈرنے لگیں تو عجیب سا لگتا ہے۔ کالا سر کھجاتا ہوا گاؤں کی طرف چل پڑا، کرمو اور پیجی دانے اٹھا کر چکی کی طرف نکل گئے اور چاچا فضلو نیم دراز ہو کر پیپلی کی شاخوں پر نظریں جمائے حقے کے کش لینے لگا۔ 

ملاں آکھیا چونڈیاں ویکھدیاں ایں غیر شرح توں کون ہیں دور ہو اوئے
ایتھے لچاں دی کوئی تھاوٗں ناہیں  پٹے دور کرحق منظور ہو اوئے
انا الحق کہاوناں کبر کر کے  اوڑک مریں گا وانگ منصور ہو اوئے
وارث شاہ نہ ہنگ دی باس چھپے بھاویں رسمسی وچ کافور ہو اوئے

اوئے پترا کوئی برا نہیں اس کے کارخانے میں کچھ فالتو نہیں، یہ ملاں۔۔۔کچی کا قائدہ پڑھانے والے استاد ہیں، تختی لکھاتے ہیں لوگوں کو ۔۔۔۔وہ بھی ضروری ہے۔۔۔مگر حرفوں سے لفظ اور لفظوں سے بات بنتی ہے اور اصل استاد کی ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں باتوں سے رمز نکلتی ہے۔۔۔ہا۔۔۔وہ آگے کے سبق ہیں جو ان کو نہیں آتے۔۔وہاں تو مرشد کی ضرورت پڑتی ہے، چاچا فضلو آنکھیں موندے بولتا جا رہا تھا اور اللہ دتے کو جیسے ٹھنڈے پانی کے کٹوروں سے بڑی دیر کی لگی پیاس بجھانے کا موقع مل رہا تھا۔ نہیں سمجھا۔۔۔اوئے کھوتے دے پتر۔۔۔اب دیکھ ملاں تم کو بتائے گا کہ جھوٹ بولنا بے ایمانی ہے اور چوری کرنا گناہ ہے، لیکن اللہ سوہنا اپنی کتاب میں مزے لے لے کر سناتا ہے کہ جب میرے یوسف نے اپنے بھائی کو اپنے پاس روکنا چاہا تو ہم نے اسے مشورہ دیا کہ اپنی پھوپھو کی طرح اپنے بھائی پر چوری کا الزام لگا دو، یہ پیالہ اس کے سامان میں چھپا دو اور پھر خود ہی لوگوں کے سامنے نکال لینا ، اس طرح تم اسے اپنے پاس روک سکو گے۔ اب ہم کیا کریں گے پتر جب وہ سوہنا خود ہی فرما رہا ہے کہ ہم نے یوسف کو کہا کہ اپنا عمدہ ترین لباس پہنو اور خوب بناؤ سنوار کرو تا کہ تمھارے گھر والوں سے تمھیں سمجدہ کرواؤں۔ اوئے پتر سب اسی کی چلتی ہے ۔یہ سچ جھوٹ، یہ اچھا ئی برائی سب نیتوں کے کھیل ہیں۔تم تو کچھ اور کہتے ہو پر اس نے تو آدھی رات کو اپنے نبی موسیٰؑ کی ماں کو اپنے بستر پر اتنا بے چین کیا کہ وہ بھاگی بھاگی فرعون کے محل میں اپنے خاوند کے پاس پہنچی اور فرعون کے سرہانے ہی اپنے خاوند سے موسیٰؑ کا تخم اپپے کوکھ میں رکھوا لیا۔

لیکن چاچا یہ سب باتیں کھل کر کیوں نہیں بتائی گئیں، یہ عام لوگوں تک کیوں نہیں پہنچ سکیں۔ اوئے سوردے پتر تیرے لئے تیری ماں کے پیروں میں تیری جنت ہے لیکن تیرے باپ کی راحت اس وقت ہے جب وہ اس کے پاؤں گز بھر اوپر اٹھا لے، جو وہ اس کے ساتھ کرتا ہے اس کا توُ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ معرفت کا بھی یہی حال ہے ایک گروہ غلاموں کا ہے جس کی بخشش دین کے قدموں میں ہی ہے لیکن ایک گروہ اور بھی ہے جو وہاں تک جاتا ہے جہاں غلاموں کی رسائی نہیں۔

(جن قارئین کو یہ ایک اصلاحی یا مخصوص نظریے کی تحریر لگے وہ شوق سے یہاں پر اختتام کر سکتے ہیں، اور جن کے دین یا عقیدے کی باز گشت انہیں اس پیپلی کے نیچے گھٹن یا اجنبیت محسوس کروا رہی ہو ان کو تو اس افسانے کو شروع ہی نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ حقیقی واقعات کسی کی رائے لے کر وقوع پذیر نہیں ہوا کرتے۔ میں جو لکھ رہا ہوں وہی میرا مقصد ہے اور جس طرح سے لکھ رہا ہوں سچائی اسی طرح سے ہے۔)

اللہ دتہ چاچے فضلو کے پاس ہی بیٹھا رہتا تھا، وہیں پیپلی کے منڈھ میں دو تنکے جلا کر چائے بنا لی، وہیں دو بھٹے بھون کر ایک چاچے کو دیا ایک خود کھا لیا اور وہیں چاچے کی ٹانگیں دباتے دباتے ظہر سے عصر کر دی۔ شام گہری ہوئی تو چاچے کو پیپلی اور گاؤں کے درمیان اس کے ایک کمرے کے گھر میں چھوڑا،رات کا حقہ پانی پاس رکھا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ 
چاچے فضلو کی ٹانگیں دباتے دباتے اللہ دتہ جیسے خیال ہی خیال میں بولا، چا چا یہ کالا کچھ وکھرا سا ہوتا جا رہا ہے، جیسے بیمار ڈنگر نہیں الگ تھلگ سا رہنے لگتا ، اس کے اندر جیسے کچھ پک رہا ہو، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے جیسے یہ پاگل ہو جائے گا۔ہاں پتر شکر میں ریت مل جائے تو صاف کرنا بہت اوکھا ہو جاتا ہے، کچھ ہوتے ہیں جو اُس کو بھی صاف کر لیتے ہیں لیکن وہ بھی اوپر والے کا ۶خاص کرم ہوا کرتے ہیں اب مینہ روز روز تو نہیں برستا ناں ورنہ فصلیں کیسے پکیں۔پتر میں ایک آندھی دیکھ رہا ہوں، ایک ریتلا طوفان دیکھنے والوں کو اندھا کر دینے والا، درختوں باڑوں کو گرا دینے والابندھے ہوئے بند توڑ دینے والاطوفان۔ چاچا تمہارے منڈھ سے لپٹے رہیں گے ہمیں طوفان سے کیا لینا دینا۔ تم تو ہو گے ناں چاچا تم تو رہو گے ناں،

جت ول مینڈا متر پیارااوتھے ونج آکھیں میری عاجزی وو
جوگن ہوواں دھواں پاواں تیرے کارن میں مر جاواں تیں ملیاں میری تازگی وو۔
راتیں درد وہیں درماندی مرن اساڈا واجبی وو
لٹاں کھول گلے وچ پائیاں میں بیراگن آودی وو
جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی کوک نہ سکاں ماری لاج دی وو
کہے حسین فقیر سائیں دا راتیں دھیں میں جاگدی وو

آندھی طوفان میں بس گھاس نہیں گرے گی میرے بچے بس مٹی رہے گی، تم مٹی سے لپٹ جانا، گھاس کی طرح بچھ جانا، نشانی تو بتاؤ چاچا اس خونی طوفان سے ڈرا تو دیا اس کی پہچان تو بتاؤ۔ میرے بچے یہ اُس اوپر والے کا قانون ہے کہ اس نے دنیا میں اچھائی اور برائی کو ایک دوسرے سے ملا کر ایک دوسرے میں چھپا کر بھیجا ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو وہ خود ایک روز کرے گا پر ابھی جہاں جتنی بڑی اچھائی ہے اسی کے پہلو میں اسی کے برابر کی جہالت بھی موجود ہے۔۔۔۔ یہ طوفان بھی وہیں سے اٹھے گا جہاں سے اس کی معرفت کی شمع روشن ہوئی، جہاں سے توحید کا عشق کا زمزمہ اٹھا وہیں پر نفرت کا پھوڑہ بھی پھٹے گا اور اسکا تعفن اس کی پیپ پورے وجود میں پھیل جائے گی۔

چاچا تبلیغ کی کیا اصل ہے۔اللہ دتے نے جیسے آنے والے طوفان کے خوف کو بے دھیانی میں کسی اور طرف موڑنے کی کوشش کی۔ ہا۔۔۔ پتر پھیلایا برائی کو جاتا ہے، خوشبو تو خود پھیلتی ہے ،،،،ہا۔۔۔۔

الف اللہ چَنبے دِی بُوٹی مَن وچ مرشد لائی ہُو ۔۔۔۔۔
نفی اثبات دا پانی مِلیُس ، ہر رَگے ہر جائی ہُو۔۔۔۔۔۔
اندر بُوٹی مُشک مچایا ، جاں پُھلاں پر لائی ہُو ۔۔۔۔۔
 چِر جُگ جِیوے مُرشد باہو، جَیں بُوٹی مَن لائی ہُو۔۔۔

پتر اچھائی تو ایک بیج ہوتی ہے اس احمق کا کیا جو بیج ہاتھ میں اٹھائے سب کو زچ کرتا پھرے کہ یہ اچھا بیج ہے اس سے اچھی فصل نکلے گی، سیانے تو اچھے بیج کو مٹی نرم کر کے اس میں دبا دیتے ہیں اور پھر فصل خود بتاتی ہے کہ بیج کیسا تھا، مٹی نرم کئے اور پانی لگائے بغیر بیج ضائع کرنے سے تو صرف نقصان ہی ہوتا ہے پتر۔ اچھا اب تو جا اور جیسے تجھے سمجھایا تھا بڑے گاؤں کے چوہدری سے بات کر کہ میری باقی زمین کا ایک اور ٹکڑا خرید لے، ہو سکتا ہے پتر کالا اپنی ماں کی بینائی کی وجہ سے پریشان ہو، موتیا ہی ہے ناں کچھ بڑا مسئلہ تو نہیں آپریشن ہو گا تو ٹھیک ہو جائے گی اور پھر میں نے اپنی ایک بچی بھی تو رخصت کرنی ہے اس کا بھی کچھ بندوبست ہو جائے گا، چاچا یہ کالے کی ماں تو ٹھیک ہے پر تیری بیٹی کہاں سے آ گئی ، ہیں۔۔۔ ذرا یہ تو بتا مجھے۔۔۔اللہ دتے نے چاچے کا ہاتھ پکڑ کر شرارت کے انداز میں لیکن حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔ اوئے دفع ہو جا تو۔۔۔شودائی کہیں کا۔۔۔۔یہ سب پتے اس پیپل کے ہی ہیں ناں، ایک بھی ٹوٹے تو وہاں سے آتی دھوپ اس کا پتہ دے دیتی ہے۔

آج پھر چلچلاتی دھوپ میں پیپلی کی ٹھنڈی چھاؤں میں چاچے فضلو کے منجے پر ایک دنیا بسی ہوئی تھی، اگلے مہینے ساون کے شروع ہونے کے ساتھ ہی شعروں کی محفل ہونی تھی اور سب کسی نہ کسی تیاری میں چاچے سے مشورے لے رہے تھے۔

چاچے فضلو نے سلطان باہو کی ایک قافی ختم کرتے ہوئے سب کو اپنے اپنے تیار کیے ہوئے شعر سنانے کو کہا۔ کالا جو چاچے کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اچانک درمیان میں بول پڑا۔۔۔چاچا کیا شعر گا کر سنانا حرام نہیں ہو جاتا۔۔۔۔۔چاچے کے چہرے پر وہی اثرات ابھرے جو پچھلے سال کرمو لوگوں کی تیار فصل میں اچانک آگ بھڑک اٹھنے پر ابھرے تھے، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پکی ہوئی فصل کا سارا کھیت خاکستر کر دیا تھا۔۔۔۔۔
پتر اللہ خود سوہنا ہے اور سوہنی چیزوں کو پسند کرتا ہے، اللہ سوہنے نے گدھے کی آواز کو سب آوازوں میں نا پسند کیا ہے۔ کیا پرندوں کے چہچہانے، فصلوں کے لہلہانے، بادلوں کے گرجنے، بارش کے برسنے کو سنتے نہیں ہو، کیا یہ دور تک بچھی چلی جاتی گھاس اور بیچ بیچ میں شعروں کی طرح سیدھے اور اوپر اٹھتے ہوئے درخت نہیں دیکھتے، کیا جمے ہوئے بلند پہاڑوں میں سے بہہ بہہ کر نکلتے ہوئے چشمے اور ندی نالے تمھیں کچھ نہیں سناتے، دیکھ پتر اوئے، یہ چھوٹا سا تنکا مشکل سے دو حصوں میں بٹ سکتا ہے لیکن یہ بڑی شاخ مڑ بھی سکتی ہے، جھک بھی سکتی ہے، بڑھ بھی سکتی ہے اور اپنے بہت سے حصوں میں سے مختلف پتے اور کونپلیں بھی نکال سکتی ہے یہی مثال ہے میرے بچے بس یہی حال ہے چھوٹے اور بڑے ذہن کی۔۔۔۔لیکن چاچا مولوی صاحب تو۔۔۔۔اوئے تیرے مولوی کی ماں کی ۔۔سری۔۔۔۔مولوی تو کل سپیکر پر قرآن کی تلاوت کر رہا تھا اور میں ادھر کھیت میں رفع حاجت میں مصروف تھا۔ نہیں چاچا مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ ایک دفعنبی پاکﷺ کا کہیں سے گزر ہوا تو گانے کی آواز آرہی تھی جس پر انہوں نے اپنے کان بند کر لئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ جب آواز آنا بند ہو جائے تو مجھے بتانا۔۔۔۔اوئے توں وی کھوتے دا پتر اور تیرا مولوی بھی ، اوئے تیری بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ گانا سننا اور دھیان لگا کر پورا سننا نبی پاک کا حکم ہو گیا ۔ اوئے پتر حکم کے درجے ہوتے ہیں، ہر پھل کا ایک موسم اور ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے۔ تیر ا مولوی سپیکر پر کہتا رہتا ہے کہ کتا پالنے سے گھر میں فرشتے نہیں آسکتے اُس الو کے پٹھے سے کہنا کہ جب مرنے لگے تو گھر کے باہر ایک کتا باندھ لے نہ عزرائیل آئے گا نہ اُس کی جان نکلے گی۔ اوئے کتے کی جان بھی تو کوئی نکالتا ہے یا نہیں۔

بڑا ہوا تو کیا ہواجیسے پیڑ کھجور۔۔۔۔۔پنتھی کو چھایا نہیں پھل لاگے اتی دور

لیکن چاچا شرک کی تو کوئی معافی نہیں۔۔۔کالے کی بجائے پیجے نے بات بڑھائی جو منجے کے کونے پر کرمو کے پیچھے بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔ چاچے فضلو نے دور کرمو کے کھیتوں کی طرف حیرت بھری نگاہ دوڑائی جیسے آگ پچھلے سال نہیں بلکہ ابھی لگی ہو اور ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتی جا رہی ہو۔ چاچے فضلو نے گاؤں کے دوسرے کونے سے نظر آنے والی مسجد کے سپیکر پر نظریں جمائیں اور حقے کا گہرا کش لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔اُس سوہنے اللہ کے سوہنے نام ۔۔وہ خود کہتا ہے کہ میں ظاہر بھی ہوں اور باطن بھی ، اب جو اُسے دیکھتے ہیں ، اُس کی نشانیاں پہچانتے ہیں وہ بھی اُس کے نام کی دلیل اور جو نہیں دیکھتے وہ بھی اُس کے باطن ہونے کی تصدیق ہی کرتے ہیں، کس کی مجال ہے جو اُس کے ساتھ کسی کو کھڑا کرے۔۔۔کملیو، اندھے کو کیوں کہتے ہو کہ دیکھو سورج نکلا ہوا ہے، اندھے کو کہو کہ جب تمھیں دھوپ لگتی ہے تو وہ سورج ہوتا جوتپش دیتا ہے۔

جیسے تِل میں تیل ہے، جیوں چکمک میں آگ۔۔۔۔۔تیرا سائیں تجھ میں ہے تو جاگ سکے تو جاگ۔

اچھا اب مجھے چھوڑو، تم لوگ جاؤ یہاں سے، جاؤ سب کے سب، اللہ دتے کے سوا سب چلے گئے، چاچا فضلو نیم دراز ہو کر کراہنے لگا، اللہ دتہ ٹانگیں دباتے ہوئے سوچ رہا تھا چاچا اب بوڑھا ہو گیا ہے۔

کرمو آج صبح کی گاڑی سے شہر چلا گیاتھا، نوکری کی ضرورت اور فرق کی وجہ جاننے کی خواہش نے آخر اسے گھونسلے سے باہرگرا ہی دیا۔ گاوٗں کی مسجد میں توسیعی کام ہو رہا تھا جس کی وجہ سے کالا اور پیجی دن کا زیادہ وقت اب مسجد کے کام میں ہاتھ بٹانے میں ہی لگاتے، خوشیا بھی اب کبھی کبھار ہی نظر آتا ، پیپلی کے نیچے بس چاچا تھا اور اللہ دتہ۔ چاچے کی طبیعت اب روز ہی خراب رہتی تھی، کبھی بخارکبھی کھانسی اور کبھی دل کا درد ۔ 
کرمو چھوٹا سا بیگ لئے بس سے گاؤں کے پرانے سٹاپ پر اترا تو اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی چھوٹا سا گاؤں ہے یا کوئی شہر ہے ، ۔ وہ دوکانوں کے بیچ سے نیچے اترتی ہوئی چھوٹی سڑک پر پیدل ہی چل پڑا۔ چکی سے پرانے گاؤں تک سب زمینیں آباد ہوچکی تھیں۔ معلوم نہیں کون سی گلی کون سا رستہ میرے گھر جاتا ہے۔۔۔اچانک اس کی نظر پیپلی کے ایک بوڑھے پیڑ پر پڑی وہ بے دھیانی میں اسی طرف چل پڑا۔پیپلی کے پیڑ پر کہیں اشتہار لکھا ہوا تھا تو کہیں کوئی بینر لٹک رہا تھا۔۔ ایک مسجد بن چکی تھی جس کے طہارت خانوں کی دیوار پیپلی کے پیڑ کو کاٹتی ہوئی آگے تک جا رہی تھی دیوار اور پیپلی کے ساتھ الگنی باندھ کر حجام نے وہاں تولئے خشک کرنے کے لئے لٹکائے ہوئے تھے۔ پوری دیوار جنسی علاج کے دعووں ، برائے فروخت زمین جائیداد کے اشتہاروں اور مذہبی فتووں کی عبارتوں سے بھری پڑی تھی۔۔۔ ،طہارت خانوں کی دیوار سے آگے پرانے گاؤں کے درمیان تک ایک بہت بڑا اسلامی مدرسہ بنا ہوا تھا۔ ۔دوسری طرف کچھ دکانیں اور چائے کا ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ اسے آتے جاتے لوگوں میں سے صرف ایک دو چہرے ہی جانے پہچانے لگے جو اُسے دیکھ کر آگے نکل گئے باقی تو سب مدرسے کے بچے تھے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے، سر پر بہت سا تیل اور سامنے کی جیبوں میں کنگھا اور مسواک ۔اچانک اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی وہ پیپلی کے منڈھ کے پاس مجذوب سی حالت میں مٹی پر نیم دراز پڑا ہوا تھا اس کے ذہن کا کوئی گوشہ کہہ رہا تھا کہ یہ چہرہ اس کا بہت قریبی ہے لیکن آنکھیں پہچان نہیں پا رہی تھیں ۔۔۔ اوہ میرے اللہ ۔۔۔یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کیا یہ اللہ دتہ ہے۔۔نہیں۔۔۔ یہ حالت۔۔۔چاچا فضل دین۔۔۔۔اس کے ذہن کے گوشے بیدار ہونے لگے۔۔۔وہ تیزی سے اس کے پاس ہوا۔۔۔اوئے دتے یہ تُو ہے۔۔۔اوئے مجھے پہچانا۔۔۔میں کرم الٰہی۔۔۔کرمو۔۔۔۔مجذوب نے آنکھیں کھولیں اور اپنے سامنے ایک خوش پوش ، لحیم شعیم باریش شخص کو دیکھ کر کچھ حیران سا ہو گیا۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ مجذوب کچھ سن سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ وہ بولنے لگا ہے۔۔۔تم کرمو ۔۔۔تم ۔۔۔۔اتنے برسوں بعد۔۔۔۔اوئے تجھے کیا ہوا دتے، یہ تیری کیا حالت ہے۔۔۔ چاچا فضلو۔۔۔ کالا۔۔۔ پیجی۔۔۔۔چاچا تو یہ لیٹا ہے، دتے نے پیپلی کے منڈھ کے پاس طہارت خانوں کے دیوار کے سائے میں ایک قبر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

کالا اب حاجی کمال دین ہے وہ دیکھو اس کا نام لکھا ہے دتے نے سڑک کے اوپر لگے انتخابی بینر کی طرف اشارہ کیا، چاچے کی قبر پر گاؤںوالوں نے ایک چھوٹا سا مقبرہ بنوایا تھا لیکن مولوی اور کالا حج سے واپس آئے تو اس کو گروا کر چاچے کی زمین پر یہ مدرسہ اور مسجد بنوالی تھی ۔ اب وہ دونوں ان سب دکانوں اور جگہ کے مالک ہیں۔
آپ کرم الہٰی صاحب ہیں ایک لڑکا جس کے بالوں پر بے تحاشا تیل تھوپا ہوا تھا اور سامنے کی جیب میں کنگھی شیشہ اور مسواک رکھی تھی نے پاس آ کر کرم الہٰی سے پوچھا۔۔۔۔ہاں میں ہی ہوں کرم الہٰی۔۔۔کرمو نے قدرے حیرت سے جواب دیا ۔۔۔۔کسی نے مولوی صاحب کو بتایا ہے کہ آپ آئے ہوئے ہیں ، نماز کا وقت ہونے والا ہے مولوی صاحب نے آپ کو بلایا ہے کے نماز ہمارے ساتھ ہیں پڑھیں۔ کرمو نے گھڑی کی طرف دیکھا، اپنی لمبی کالی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کچھ کہنے کے لئے دتے کی طرف مڑا دتہ کی آنکھیں نیم وا تھیں، اس کا جسم کچھ زیادہ ہی لڑکھا ہوا اور بے جان سا لگ رہا تھا پتہ نہیں کیوں کرمو کو لگا جیسے دتہ نہیں چاہتا کہ اُس لڑکے کو پتہ چلے کہ وہ سُن سمجھ سکتا ہے اور ٹھیک ٹھاک ہے ۔کرمو لڑکے کے ساتھ مسجد کے طرف نکل گیا۔ اُس دن کے بعد وہاں وہ مجذوب بھی کبھی کسی کو نظر نہیں آیا۔ 




No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...