Wednesday, January 7, 2015

ہمارا تہذیبی بحران اور اردو افسانہ۔

اگر جولیا کرسٹیوا نے تذلیل (Abjection) پر بات نہ کی ہوتی اور اس کوایک باقائدہ نفسیاتی و ادبی موضوع کی حیثیت تک نہ لے گئی ہوتی تو یہ لفظ ڈکشنری میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ اگر اکیسویں صدی کے دروازے پر(1993-1996) کھڑے ہو کر امریکی ماہر سیاست
سیموئل فلپس ہٹنگٹن نے تہذیبوں کا تصادم نہ لکھی ہوتی تو گزشتہ دھائیوں کے دوران تہذیب کی تعریف اور تہذیبوں کے تقابل پر مباحث میں ہر خاص و عام دلچسپی نہ لے رہا ہوتا۔ 

حسن اتفاق ہے کہ تہذیبون کا تصادم ہو، تہذیبی انہدام ہو یا تہذیبی بحران ہو ایبجیکشن کو یہاں بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ سیموئل کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی یا نہیں اور اس نظریے کو بلا غور و فکر مانے بغیر کہ اکیسویں صدی بالخصوس نائن الیون کے بعد کا عالمی منظر نامہ تہذیبوں کے تصادم کاشاخسانہ نہیں ہے بلکہ فقط سیاسی و معاشی مفادات کی حفاظت اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے اپنے حق میں جاتے ہوئے عدم توازن کو برقرار رکھنے کی ایک سیاسی کوشش ہے آئیے ایک نظر تہذیب و تمدن کی تعریف پر ڈالتے ہیں، کیونکہ بہت سے قضیئے لسانی مبالغوں کے علاوہ کوئی اور جواز نہین رکھتے اور بہت سے مسائل الفاظ و معانی اور ان کے سماجی تعلق پر غور کرنے سے ہی حل کئے جا سکتے ہیں۔

تہزیب و ثقافت کیا ہے:

ثقافت " کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔

تہذیب بمعنی ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔

کلچر کا مطلب ہے

, کاشت کرنا ۔۔۔ اور 

کسی فرد یا معاشرے میں فنون و ادب، تعلیم و تربیت اور سوچ و تفکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فرق کی وجہ سے محسوس ہونے والی تبدیلی کو بھی کلچر یا ایسے فرد یا معاشرے کو کلچرڈ کہاجاتا ہے۔ 


کسی معاشرے کی علوم و فنون سے وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حالت یا یاکیفیت

ایک مربوط، منظم اور ترقی یافتہ معاشرہ

بین الاقوامی اجتماعی معاشرہ۔

خیال کی پرواز

کسی معاشرے کے ترقی یافتہ خطے کی سہولیات کی کیفیت۔


ایسا تسلسل یا طرز فکر جس سے کہ ایک معاشرہ اپنے کمال کو پہنچتا ہو۔

کمال کی اُس کیفیت کا نام۔

کسی مخصوص خظے یا دور کے عوام کا طرز بود و باش اور تمدن۔

جدید زندگی اور جدید معاشروں کی سہولیات و خدمات

۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر


ریاستی افعال و سرگرمیوں کا ایک ایک مجموعہ جس میں مندرجہ ذیل میں سے چند ایک یا سب ادارے شامل ہوں مثال کے طور پر اجتماعات کے مقامات و صلاحیت، رسم تحریر اور تمدنی زندگی۔


مطلب یہ ہوا کہ تہذیب و ثقافت، کلچر و سیولائزیشن دو معنی میں استعمال ہونے والی تراکیب ہیں؛

اول: کسی قوم، معاشرے یا گروہ کی تربیت یافتہ شکل اور ان کے قوانین ، آئین ، تاریخ وغیرہ اُن کی شعوری بالیدگی، قانونی سماجی و سیاسی اداروں کی صلاحیت کاری و استعداد

دوئم:اس تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ، بالیدہ، باصلاحیت مقام تک پہنچانے والے اور اس سطع کو قائم رکھنے والے عوامل عادات، رسوم و رواج، جیسے، مذہبی نظریات، شعر و ادب، تاریخ سے شغف سائنس سے شغف، فنون لطیفہ و فلسفہ کا اجتماعی جمالیاتی ذوق۔

اگر ہم گیارہ ستمبر کے بعد کے منظر نامے پر نظر دوڑائیں، سیموئیل کی پیشن گوئی کو ذہن میں تازہ رکھیں اور تہذیب و ثقافت، کلچر و سیولائزیشن کی درج بالا تعریف کو سامنے رکھیں تو ہمیں اس نظریے سے زیادہ اس کے جواب میں آنے والی تنقیدی آراء اور بالخصوص اس خیال میں زیادہ جان نظر آتی ہے کہ تہذیب و ثقافت ایک زیادہ وسیع تصور ہے اور اس میں تصادم ممکن تو ہے لیکن اس قدر آسان نہیں ہے 

سیموئل نے اپنے ابتدائی مضمون یا بعد میں چھپنے والی کتاب میں جن تہذیبوں کا ذکر کیا ہے ( مثال کے طور پر مغربی تہذیب، لاطینی امریکی تہذیب، قدامت پسند تہذیب، مشرقی تہذیب، چینی تہذیب اور مسلم تہذیب) ان میں سے اکثر نے اس خیال کو سنا، پڑھا، جائزہ لیا اور اس خیال سے کسی منطقی یا علمی نوعیت کا اتفاق یا اختلاف کیا لیکن دوسری طرف سوائے ایران کے مسلم تہذیب یا مسلم ممالک کی تہذیب ( میرے خیال میں یہ دو الگ حقیقتیں ہیں) نے حسب روایت کوئی جواب دینے، اختلاف کی صورت میں کوئی منطقی استدلال پیش کرنے یا اتفاق کی صورت میں کوئ مثبت رائے دینے کی بجائے بڑھ چڑھ واویلا مچایا اور اس نظریے کو مغرب بالخصوص امریکہ کا ایک مبنی بر دروغ پروپیگنڈہ کہا اور اسے مسلم امہ کے خلاف ایک سیاسی چال کہا قابل تاسف بات یہ ہے کہ سیاسی یا مذہبی حلقوں اور ریاستی اداروں کی طرف سے تو خیر لیکن ادبی حلقوں میں بھی نہ اس اہم ترین خیال پر کچھ لکھا گیا اور نہ ہی اس کو پس منظر میں رکھ کر کوئی تخلیق سامنے آئی مجھے نہیں یاد پڑتا کہ بالخصوص پاکستان میں کوئی ایک بھی افسانہ یا ناول اس تناظر میں منظر پر آیا ہو اور ستم ظریفی یہ کہ سیاسی اور مذہبی حد تک یہی مسلم ممالک دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس نظریے کو سچ ثابت کرنے کا آلہ کار بنتے نظر آتے رہے۔

تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کے جواب میں جس خیال کو سب سے بہتر پذیرائی ملی وہ سابق ایرانی صدر خاتمی کا "تہذیبوں کے مابین مکالمہ" کا تصور تھا۔

اسی خیال کو ایران کی طرف سے جنرل اسمبلی میں ایک ریشولیشن کے طور پر پیش کیا گیا جس کو اکثریت کی حمایت حاصل

رہی اور اسی کی بنیاد پر1998 میں اقوام متحدہ نے سن2001 کو تہذیبوں کے مابین مکالمے کا سال قرار دیا۔ 

خاتمی کا یہ جواب اور اس کی بین الاقوامی پذیرائی ایک مثبت طرز فکر کی نشاندہی کرتا ہے اس سے کسی تصادم کے "خوف" اور کسی تہذیب کو زیر کرنے کی سوچ یا کسی تہذیب کے حاملین میں عدم تحفظ کے احساس کی بیخ کنی کرنے کے طرز عملای کے اشارے ملتے ہیں اس سوچ سے تصادم کی بجائے مابعد جدیدیت کا رنگ جھلکتا ہے کہ کوئی ایک غلط نہیں ہے تو پھر سب غلط نہیں ہیں اگر کوئی ایک بہتر ہے تو پھر اپنی اپنی جگہ سب بہتر ہیں۔ یہ خیال تہذیب و تمدن کے معروضی بنیادوں پر درست یا غلط کے جھگڑے کو موضوعی بنیاد پر تقابل و مکالمے کے فروغ میں بدلنے کی ایک کوشش ہے۔

یہ تو تھا سیموئل کی کتاب یا تہذیبوں کے تصادم کے نظریے اور اُس کے حقیقی یا باطل ہونے اور اُس کے جواب میں آنے والے ایک مثبت جواب کا احوال لیکن وہاں کیا کیا جائے جہاں نہ تو کوئ ایک بھی اہم کتاب منظر پر آئی نہ کتاب یا نظریات کا علمی و تنقیدی جواب دینے کا رواج رہا نہ کسی نے اس مفلوک الحالی اس قحط الرجال پر تاسف کرنے کی یا کڑھنے کی زحمت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلکہ جہاں تہذیبوں کے تصادم کی بجائے تہذیبی انہدام کا اہتمام ہوتا رہا ایک معاشرے کو اندھا بہرا اور مفلوج کر کے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے۔۔۔۔۔ جی بدقسمتی سے یہ اس ملک کا تذکرہ ہے جہاں تہذیبی انہدام کے بعد بعد

اب ایک خلا ایک ابتلاء ایک تہذیبی بحران کا دور ہے۔

یہاں یہ بات واضع کر دینا ضروری ہے کہ پاکستان میں موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے اور اُس کی جڑیں ماضی قریب و بعید میں ڈھونڈنے کا کہ یہ مقصد قطعا نہیں ہے کہ ہم کالی بھیڑ بن کے پاکستان کے قیام ، پاکستانی عوام یا ان کے جذبات و قربانیوں پر تنقیص محض کرنے لگیں، اور نہ ہی پاکستانی عوام یا بالکل غیر جانبدار و خالصتاغیر جانب دار و غیر جذباتی تحقیق نگاروں یا تجزیہ کاروں کے علاوہ کسی کو اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی ذہنی و جذباتی کیفیت چاہے قیام پاکستان سے پہلے ہو یا بعد میں پر کسی قسم کی رائے زنی کرتا پھرے کیونکہ بحر حال عوامی خلوص و قربانی کسی بھی شک و شبے سے بالاتر رہی۔۔۔۔۔ یہاں حال ہی میں پاکستان میں چھپنے والے اقبال حسن خان کے ایک ناول "گلیوں کے لوگ" میں پیش کیئے جانے والے منظر نامے اور اس ناول کے کرداروں کی خود کلامیوں اور مکالموں کو دہرانا شاید اس فرق کو سمجھنے میں ممد ہو گا۔۔۔۔۔ گلیوں کے لوگ میں مصنف نے بڑی خوبصورتی اور چابک دستی سے کرداروں اور مکالموں کی زبانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قیام پاکستان کے وقت متحرک تینوں طرح کے نظریات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ ایک مولانا آزاد نظریہ جو پاکستان بنانے کا سماجی و ثقافتی عقلی بنیادوں پر مخالف تھا اور جسے وہ نظر آ رہا تھا جو شاید "بقول اُن کے" جناح صاحب کو نظر نہیں آ رہا تھا کہ مسلمانان خطہ کا ثقافتی ، تمدنی و تاریخی تعلق اپنے ماضی قریب سے قطع ہو جائے گا اور ایک ثقافتی قطع تعلقی یا انہدام کی صورت پیدا ہو جائے گی ۔۔۔۔ دوسرا جناح صاحب یا مسلم لیگ کا نظریہ کہ ۔۔۔۔ لوگوں کے مذہبی جذبات کی طاقت کو ساتھ ساتھ رکھ کر ایک نئے ملک کی بنیاد تو رکھی جائے لیکن اُس کو کسی بھی ایک گروہ کے حوالے کرنے کی بجائے اُسے ایک فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کی جائے جہاں سب کو اپنے اپنے نظریات کے مطابق مکمل آزادی حاصل ہو اور تیسرا جاگیرداروں، وڈیروں اور مذہبی ٹھیکیداروں کا نظریہ جو قیام سے پہلے اپنے ذاتی مفادات کی وجوہ پر اختلاف کرتے رہے اور قیام کے بعد بھی اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے نظریات کو ہانی جیک کرنے میں لگے رہے ۔۔۔۔

یہ بات ہمارے بہت سے "روشن خیالوں" کے دل کو لگتی ہے کہ کہ جناح صاحب کی سیاسی کوششیں مذہبی ملمع کاری سے بے نیاز تھیں لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ عوام اور خاص کر ناخواندہ اور سیاسی شعور سے بے بہرہ عوام کو اکھٹا کرنے اور متحرک کرنے کے لئے مذہبی نعرہ ایک بہتریں پلیٹ فارم ہے اور یہ کہ اس کے بغیر عوام کا سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے صدیوں نہیں تو برسوں درکار ہیں تو انھہوں نے اس قوت کو ضائع کرنے کی بجائے اس کو ایک مثبت رخ کی طرف موڑ دیا۔۔۔(۔اب یہ ضروری نہیں ہے کہ تاریخ اسے ایک پرخلوص حکمت عملی کے طور پر ہی یاد رکھے۔ تاریخ اس کو ایک فاش سماجی غلطی یا ایک ظالمانہ سیاسی چال کے طور پر بھی محفوظ کر سکتی ہے ) مثبت رخ کی طرف موڑنے سے میری یہ مراد ہے کہ عوام کے جذبات کو جٹھلانے اور اُن کو سیاسی دھارے سے کاٹنے کی بجائے اس خیال کو بھی اسی طرح رہنے دیا گیا کہ یہ نیا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ اس نظریے کی اصلاح بھی کی جاتی رہی کہ اسلام کے نام پر ملک سے مراد تھیوکریسی یا ایک اسلامی ریاست نہیں بلکہ ایسا ملک جہاں پر ہر ایک کو مذہبی ، سیاسی اور ثقافتی آزادی حاصل ہو گی۔ 

لیکن اس بد قسمت خطہ ارضی کے ایک ملک بنتے ہی ایک ایسی افراتفری ایک آپا دھاپی شروع کی گئی اور بجائے اس نوآزاد خطے کو خود پھلنے پھولنے اور پنپنے کا موقع دینے کے اسے اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے شکنجے میں کَس دیا گیا۔۔۔ ابتداء ہی سے یہ بحث چھیڑ دی گئی بلکہ بحث کیا یک طرفہ طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ یہ ملک جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق کی دستیابی، برابر معاشی و سماجی مواقع یا آزادی کی فضاء میں پھلنے پھولنے کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر وجود میں لایا گیا ہے کیا اسلام کو خلافت راشدہ کے ، اموی، عباسی، فاطمی، عثمانی اور مغل ادوار کے بعد بھی ابھی تجربہ گاہ کی ضرورت تھی کیا اس طرح کا نعرہ لگانے والوں کو اسلام کی حقانیت پر ایک لاشعوری شک نہیں تھا، اورکیا اسلام کے سنہری دور کے "تجربات" کے علاوہ وہ کوئی اور تجربہ کرنا چاہتے تھے۔۔

چلو بہت سے دلائل کے باوجود یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہی تھا تو پھر اِس تجربہ گاہ کا میں اسلام کو لٹاتے ہی اس کا رشتہ اس کے اپنے ہی مادی وجود سے کیوں کاٹ دیا گیا، اسلام کو خالص بنانے کے جنون میں اسے ایک ہی جست میں چودہ سو برس پیچھے کی دیوار پر ٹانک دیا، مذہب تہذیب و تمدن کا ایک اوزار ہے ثقافت، تہذیب ، تمدن کے استحکام، اور عروج کے لئے قانون، ادب، آرٹ ، لوک ورثہ، لسانی سرمایے، تاریخ کے تسلسل کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان سب اجزاء کو چھوڑ کر بلکہ جھٹلا کر جب ایک ہی جزو کو آنکھوں پر باندھ لیا گیا تو لامحالہ اُس معاشرے اُس خطے کے تہذیبی وجود نے منہدم ہونا ہی تھا۔۔۔۔

یہ سلسلہ چلتا رہا ، تقسیم ہند سے پہلے ہم اپنے ہندو پڑوسیوں کو جن مغل بادشاہوں کے نام اور قصے گنوا کر اپنا تفاخر جتاتے تھے پاکستان بننے کے بعد ہم نے انہی ہیروز کو "غیر اسلامی" کہہ کر سیدھا خلافت راشدہ کو گلے لگا لیا،امن، مومن، دبیر، میر، اور غالب و سودا کو ہم "اپنے شاعر" کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن پاکستان بنتے ہی وہ ہندوستانی ہو گئے اور ہم نے سرے سے شاعری کو ہی حرام کہنا شروع کر دیا ہم جس امیر خسرو، ظفر خان، پیارے خان، واجد علی شاہ، وزیر خان،امیر حسین خان، بڑے غلام علی خان،بسم اللہ خان کو ہندوستانی موسیقی میں اپنا عظیم سرمایہ سمجھتے تھے اُن کو ہم نے اپنے ماضی کی ایک غلطی

ایک شرمندگی قرار دینا شروع کر دیا۔

میدان جنگ میں تلوار ننگی ہی اچھی لگتی ہے لیکن گھر لوٹ کر بھی اگر برہنہ شمشیر لہراتے رہو تو بیوی بچے کٹ جاتے ہیں انسان احمق لگتا ہے، انفرادی زندگی کی طرح معاشرتی زندگی میں بھی نظریات و خیالات ، معاملات و اعمال کا کوئی نہ کوئی زمانی و مکانی حوالہ ہوتا ہے۔۔۔۔ پاکستان بننے سے پہلے اگر کچھ لوگ یا گروہ مذہبی نظریات و عقائد کی ایک رزمیہ کی طرح سے پر زور تکرار کرتے تھے تو وہ اُس وقت اور اُن حالات کے مطابق ضروری تھا لیکن ایک ہنگامی حالت اور اُس کی ضروریات کو مستقل قومی مزاج بنالینے کی غلطی بہت بڑی غلطی تھی اپنے قومی وجود کو اپنے ماضی قریب کے سرمایے سے، کاٹ دینا ایک ایسے خلاء کو ایک ایسے ویکیوم کو پیدا کرنے کا موجب بنا جس نے معاشرے کی رنگینی، تہذیب و تمدن کا اعتبار ختم کر دیا ہر شخص "سب کچھ غلط تھا" کے نعرے کے بہاؤ میں آ کر ماضی بعید سے اپنی بنیادوں کے لئے پتھر لانے کے فکری صحرا میں ایسا گم ہوا کہ قومی وجود کا شیرازہ ہی بکھ گیا ۔ 

رفتہ رفتہ سیاسی بالیدگی آ رہی تھی، سماجی شعور پختگی کی عمر میں داخل ہو رہ تھا، قومی مزاج اس خلاء کو پُر کر رہا تھا، لوگوں کو اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ ایک طرف تو چودہ سو سال پرانی اپنی بنیاد سے رشتہ استوار رکھنا ہے اُسی پر قدم جما کر کھڑا ہونا ہے لیکن دوسری طرف درمیانی عرصے کو دیواروں کی طرح استعمال کر کے ہی ایک گھر بن سکتا ہےلیکن ایک بار پھر بدقسمتی ہماری حماقت کی دعوت پر ہماری مہمان بنی بالخصوص اسی کی دہائی سے پاکستان دو بیرونی ملکوں کی کشمکش کا اکھاڑہ بنا ، عالمی سطح پر تہذیبی تصادم ہو نہ ہو علاقائی سطح پر دو مختلف سیاسی، قومی اور فقہی نظریات کے تصادم سے پاکستان میں تہذیبی تنزلی کا دور شروع ہو ا اور اس بار پھر ٹھیکیداروں نے ہاتھ آئے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی آنکھوں پر خود پسندی، جھوٹے تفاخر ، خالص اسلام کی بازیافت اور اسلام کے قلعے جیسے نعروں کی پٹیاں باند کر تنہائی ، قطع تعلقی اور خود فریبی کے کنوؤں میں پھنک دیا۔۔۔۔ہمارا ہماری مشترکہ ( شاید گنگا جمنی تہذیب کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں) تہذیب و ثقافت سے بچا کچا رشتہ بھی کاٹ دیا گیا ۔ 

اور ہم اکیسویں صدی میں ہم اس طرز فکر کے ساتھ داخل ہوئے ہیں کہ غالب نے کہا "غالب ندیم دوست سے آتئ ہے بُو دوست، مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں" اور چونکہ غالب نے بو تراب کی بندگی کی بات کی ہے اس لئے وہ کافر و مشرک تھا، تان سین اور سوامی ہری داس کی تو خیر بات ہی چھوڑیں امیر خسرو نے موسیقی کی بات کی ، موسیقی اسلام میں حرام ہے اس لئے امیر خسرو بھی ایک کافر تھا۔۔۔۔ بھلے شاہ نے خود کہا کہ اُسے پتہ ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں اس لئے وہ بھی کافر تھا۔۔۔۔ 

بحث یہ نہیں کہ اس میں کس کا ہاتھ ہے کس کا نہیں، کوئی خفیہ ہاتھ ہے یا سب اپنے ہی ہاتھ ہیں لیکن دستانے پہنے ہوئے ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ قومی اداروں نے، ذمہ داروں نے، پالیسی سازوں نے، قانون سازوں نے، شاعروں ، ادیبوں نے اس نازک موڑ پر کیا کردار ادا کیا۔۔۔۔

اصولی بات تو یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہے وہ قانون ساز ہوں، عقل و شعور رکھنے والے علماء ہوں، درد دل رکھنے والے ادیب ہوں یا سماجی تنظیمیں ہوں کو ہر طرح کی مسلکی و سطحی سوچ سے بلند ہو کر اس تہزیبی شکست و ریخت کا اس تنزلی کا اس بحران کا احساس کرنا چاہئے تھا اور پھر اپنی قومی شناخت، اپنے ملکی تشخص کو بچانے کے لئے میداں عمل میں کود پڑنا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا ہوا نہین اور ہر سطح پر ریاستی و سماجی ادارے انتشار کا شکار ہونے لگے۔۔۔۔۔ تقسیم ممکن نہ تھی کیونکہ تصادم کا ہوا کھڑا کرنے والے، بحران کو ہوا دینے والے اقلیت میں تھے اور اُن کے سرکردگان باہر بیٹھے تھے۔ لیکن انحطاط و بحران منطقی نتیجہ تھا جس تک ہم پہنچ گئے۔

اب تو یہ تخریب کاری یہ مبنی بر جہل رویہ یہ قول و فعل کا تضاد یا یہ نظریاتی منافقت اس حد تک زور پکڑ چکی ہے کہ ریاست اس کے آگے بے بس ہے ۔ چھوٹے چھوٹے روز مرہ کے معاملات سے لے کر قومی نوعیت کے مذہبی و سیاسی فیصلوں تک ہر طرف ایک سنگین صورت حال ہے۔۔۔۔

مذہب و سیاست کے تناظر میں اگر ہم حال ہی کا جائزہ لیں اور ہندوستان میں تازہ ترین انتخابات کے موقع پر ، دیو بندی علماء کی طرف سے ہندوستانی مسلمانوں کو مخاطب کر کے شائع کئے گئے سیاسی مشورے پر ایک نظر ڈالیں تو قطع نظر اس کے کے اسی مکتبہ فکر کا پاکستان میں جمہوریت اور سکیولر ازم کو حرام قرار دینے اور ہندوستان میں سیکولر ازم کی نہ صرف حمایت بلکہ اسے مودی کے خلاف ایک "اسلامی" ہتھیار کے طور پر ضررو بالضرور استعمال کرنے کا فرق انتہائی مضحکہ خیر نظر آتا ہے۔۔۔۔ یہ طرز عمل یہ فکر ایک اور اہم نقطے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ٹکراؤ اصولی سے زیادہ سیاسی ہے اور اس کو خالصتا سیاسی مقاصد کے کئے ہی استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ کہ ہندوستان اور پاکستان میں مسلمان عوام کاسیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے مذہبی نعروں کا تناظر بالکل الک الگ ہے یا کم از کم سیاسی ملاؤں نے ایسا کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک ہی مذہبی نظریہ یعنی اسلام پاکستان میں تو اسلامک تھیوکریسی کی حمایت کرے گا اور لبرل و سکیولر نظریات کو کفر قرار دے گا اور یہی نظریہ ساز ہندوستان میں سکیولر ازم اور لبرل ازم کا دفاع اسلامی احکام و شریعت کی روشنی میں کریں گے اور اس مقصد کے لئے شاید چند احادیث و واقعات بھی بہم پہنچا لیں گے۔

گو مذہب کا پرچار کرنے والوں کی نظر میں یہ مثلحت پسندی یا زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہو لیکن ادب کی نظر میں یہ منافقت و سماجی و اخلاقی معیار سے گراوٹ ہو گی۔۔۔۔ لیکن کیا ہمیں اطراف کے سیاسی و سماجی حالات کا ادراک کرتے ہوئے ادبی ذمہ داریوں کے تنوع کا ادراک بھی اس ڈر سے کرنا چھوڑ دینا چاہئے کہ ادب مذہب کے تابع ہے۔۔۔۔
بات چونکہ ادب اور بالخصوص افسانے کی ہو رہی ہے تو آئیے اُسی کا احوال دیکھتے ہیں۔۔۔ 

اردو اور ہندی بولنے اور سمجھنے والے پاکستان میں بھی ہیں اور ہندوستان میں بھی ، افسانہ دونوں طرف لکھا جاتا ہے لیکن


آپ ایک غیر جانبدارانہ قاری کی حیثیت سے یا ایک عام شہری کی حیثیت سے بنظر غائر اسی کی دہائی کے بعد پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب بالخصوص افسانے کا جائزہ لیں آپ کو کتنے افسانے ایسے نظر آتے ہیں جن میں اس المیے اس تہذیبی بحران کے اشارے یا اس غم و اندوہ پر کوئی آنسو کوئی کراہ یا کوئی سرد آہ ہی سنائی یا دکھائی دے جائے۔

۔۔۔۔۔ گو فکری قدریں وہی ہیں ادب کی جمالیات وہی ہے، اسالیب وہی ہیں اور مضوعات تنوع کے باوجود انسان اور معاشرے کے گرد ہی گھوم رہے لیں لیکن آج کا دورانٹر نیٹ کا دور ہے سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس تبدیلی کی وجہ سے ایک فرق یہ بھی پڑا کہ اب براہ راست قاری و تنقید نگار کی رائے سے تعامل کا موقع مل جاتا ہے کسی افسانے کسی تحریر پر اشاعت کے عرصہ بعد ایک یک طرفہ رائے موصول نہیں ہوتی بلکہ فورا ایک تنقیدی مباحثے کا سا ماحول بھی میسر ہو جاتا ہے اور بہت سی آراء کے تقابل کا ماحول بھی بنتا رہتا ہے۔۔۔۔ افسانےاور افسانے کے موضوعات پر مباحث میں بہت دلچسپ صورت حال اُس وقت ہو جاتی ہے اور پاکستان میں موجود اس تہذیبی بحران کی سنگینی کا اندازہ بہت بہتر انداز میں ہونے لگتا ہے جب کسی افسانے پر بات کرنے ہوئے کسی تنقیدی مضمون پر رائے دیتے ہوئے کوئی باقائدہ قاری کوئی صاحب رائے تنقیدی نگار کوئی شاعر آپ سے کہنے کہ منٹو ایک مایہ ناز افسانہ نگار تھا میں کم از کم افسانے کی حد تک منٹو کو آئیڈیلائز کرتا یا کرتی ہوں لیکن بس ایک تھوڑا سا مسئلہ یہ ہے کہ وہ منٹو قدرے فحش نگار تھا اگر اور ہمیں آج اس ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور "ڈھکے چھپے " انداز میں افسانے لکھنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔پاکستانی ادیب خود دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ایک تو وہ جنہوں نے مذہبی خوف کے زیر اثر سوچنا، سمجھنا، بولنا ہی چھوڑ دیا اور ادب کو مذہب کے تابع مان کر سمجھوتے کی نرم و گرم شال اوڑھ لی ہے اور دوسرے وہ ایک وہ جو فنون و ثقافت سے شعر و ادب سے وابستہ تو ہیں لیکن انہوں نے معاشرے سے معاشرے کے درد سے اپنا رشتہ کاٹ کر بس جھوٹی "ادبی جمالیات "میں پناہ لے لی ہے اُن کا ماننا ہے کہ ادب کا بھلا سیاست، مذہبی معاملات اور ریاستی حالات سے کیا تعلق ادب تو ادب ہے لیکن کیا یہ نری بکواس کے سوا کچھ اور ہے ۔۔۔۔ ۔

یہ جواز غلط ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی فضاء میں بیتھا ہو ا تخلیق کار چونکہ خطرات میں گھرا ہوا ہے اس لئے ادب و مذہب کی اقدار کے مابین فرق کو سمجھے کے باوجود وہ اُس پر کچھ لکھ نہیں سکتا۔۔۔وہ علامت نگاری کہاں گئی جو بے موقع تو لکھی جاتی رہی لیکن اب خاموش ہے ۔۔ مرحوم منشاء یاد زمانی و مکانی لحاظ سے دہشت گردی کے مرکز میں تھے لیکن "تماشہ " لکھا۔۔۔گو علامتی ہی لکھا اور قلیل لکھا لیکن کچھ تو لکھا ۔۔ اقبال حسن خان تو منشاء یاد کی نسبت زیادہ نرغے میں ہے لیکن "گلیوں کے لوگ لکھا" اور خوب لکھا جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لکھنے والا لکھے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔ تخلیق خود اپنے آپ کو خلق کرواتی ہے۔۔۔ لیکن اس ناول پر ہونے والی تنقید خون کے آنسو رلاتی ہے یہ ایک ایسے ہجوم ایک ایسی بھیڑ کی عکاسی کرتی ہے جس میں قومی شعور، ادبی جمالیات اور تحمل و برداشت نام کو نہ ہو۔۔۔۔ ادیب حساس ہو تو مکانی فاصلہ اہم نہین رہتا ۔۔۔۔۔ اور اسی لیئے یہاں اس تہذیبی بحران کے پیچھے کارفرما اپنی ہی قومی و سماجی حماقت کے موضوع پر شموئیل احمد کے افسانے "آنگن کا پیڑ" کا ذکر نہ کرنا بے انصافی ہو گی۔۔۔ حیرت ہے کہ شموئیل جیسا حساس فنکار جو کبھی پاکستان آیا ہی نہیں وہ ہندوستان میں بیٹھ کر صورت حال کا سماجی و ادبی احاطہ کر سکتا ہے اور پاکستانی ادیب جو بیرون ملک مقیم ہیں اُن کا یہ واویلا ہے کہ چونکہ ہم ملک سے باہر ہیں اس لئے ہم حالات و واقعات کی سنگینی سے کٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ کیا سیاسی و سماجی منظر نامے سے جڑے بغیر کوئی ادیب کوئی اہم تخلیق کر سکتا ہے۔ 


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...