Wednesday, January 7, 2015

ردی کا ڈھیر۔



وہ حیرت سے آسمانی صحیفوں، آئین کے پلندوں اور قانون و اخلاق کی کتابوں کے اُس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا جسے محفوظ کرنے اور سنبھالے رکھنے کے لئے عجائب گھر کی انتظامیہ خواہ مخواہ اُس کو تردد میں ڈالے ہوئے تھی،

اُسے ہزار کوشش کے باوجود کبھی اُس میں کوئی کارآمد بات کوئی مثبت خیال نہ مل سکا تھا

دور جہالت کی ہر بات ہر عمل جو کہ کاغذ کے اُس تاریخ دان میں محفوظ تھا بالکل مضحکہ خیز اور بے ہودہ سا تھا

وہ سوچ میں گم طنزیہ انداز میں مسکرائے جا رہا تھا، ردی کے اس ڈھیر کی وجہ سے اُس دور میں لوگ کیسے کیسے ظلم و ستم کا شکار رہے ہوں گے، کسی پریشانی کسی ٹینشن کی وجہ سے ایک معمولی سا قتل ہو گیا، تو جیل یا پھانسی، کسی ضرورت کے تحت کوئی چھوٹا موٹا ڈاکہ ڈال لیا کوئ چوری کر لی تو جیل اور قید کسی نے عین جسمانی تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی عورت کو پکڑ لیا تو سزا، کوڑے قید یا جیل ۔۔۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ۔۔۔ اور ایک آج کا سنہرا دور ہے جب علم و دانائی نے ہماری دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا ہے

ہم نے کیسے کیسے مشکل معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا، مذاکرات کی ایک نعمت نے کیسے الہامی ادیان، آسمانی صحیفوں قانون ساز اداروں، انتظامیہ، عدلیہ ، آئین کے پلندوں ، قانون کی دستاویزوں ، جیلوں، بھانسی گھاٹوں ، سے ہمیں نجات دلا دی ۔ اچانک فون کی گھنٹی نے اُسے جھنجھوڑ دیا، 

مذاکراتی مرکز۔۔۔؟؟؟ دوسری طرف سے ایک گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی

جی ۔۔۔ فرمائیے وہ تحمل سے بولا

چند لوگ ایک شخص کو قتل کر کے اُس کا سر تن سے جدا کر کے اُس سے فٹ بال کھیل رہے ہیں، کیا آپ ایک مذاکراتی ماہر کو روانہ کر سکتے ہیں 

جی بالکل پتہ لکھوائیے۔۔۔

فون رکھ کر پگڑی سر پر ٹھراتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا

ضرور ان معصوم لوگوں کو بچن میں کھیل کود کے مناسب ذرائع میسر نہ رہے ہوں گے، اسی لئے تو بچارے اس طرح کا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں تو بات ہے۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...