Saturday, January 3, 2015

حرافہ۔



شازیہ ہونقوں کی طرح اپنے خاوند جاوید کا منہ دیکھتی رہ گئی،


.حرافہ، سالی بازاری عورت کی بیٹی 


تیری ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔،


میرے ساتھ تمسخر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔ فاحشہ۔


جاوید۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔


آپ میری ماں کو۔۔۔۔۔۔


شازیہ کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔


ہاں تو کیا کہوں کتیا کی بچی، ایک کتیا کو انسان کتیا نہ کہے تو کیا کہے، حرافہ ، حرافہ، حرافہ۔۔۔ ایک بار نہیں سو بار کہوں گا۔۔۔

وہ ایک ہی سانس میں ایسے شازیہ اور اُس کی ماں کو مغلظات بکے جارہا تھا جیسے بہت دنوں سے یہ غلیظ القاب و آداب اُس کے حلق میں جمع تھے اوراُسے بس کسی موقع کی تلاش کسی ہلکے سے بہانے کی ضرورت تھی۔

شازیہ کے کان بند اور دماغ ماؤف ہو چکا تھا، وہ ہونقوں کی طرح چند لمحے اپنے خاوند کے تیز تیز ہلتے لبوں اور آنکھوں سے نکلتے شعلوں کو دیکھتی رہی اور پھر مٹھیاں بھینچتی ہوئی خود کار انداز میں اٹھ کر بیڈ روم سے نکل گئی ،

کرب، خوشی، پیار دکھ ، تکلیف،۔۔۔ جذبات کا فقط احساس کیا جا سکتا ہے ان کا اظہار کرنے سے یہ کبھی بیان نہیں ہوتے

شازیہ کو جاوید کے منہ سے اپنی ماں کے لئے ایسی گالیاں سن کر جو اذیت ملتی تھی اُس کا وہ فقط احساس ہی کر سکتی تھی ، اُس کییفیت کا اظہار ممکن نہ تھا۔ كاش وه جاويد كو احساس دلا سکتی ، جواب دے سکتی ۔۔۔۔۔ لیکن جواب ۔۔۔۔ وہ جاوید کو جانتی تھی وہ واپس بولنے یا جواب دینے کو اپنی آخری درجے کی توہین سمجھتا تھا اور ایسی صورت میں فیصلہ طلاق پر ہی رکتا ۔۔۔۔۔ 

طلاق ۔۔۔۔۔۔نہیں طلاق کیوں۔۔۔۔ 

وہ چاہتی تھی کہ جاوید کو اُس کیفیت کا احساس ہو، وہ بھی اُس کرب کو محسوس کرے جس سے وہ گزرتی تھی لیکن اِس کے باوجود جب اُسکی آنکھوں میں آنسو امڈ نے لگتے تو وہ اپنے زیریں ہونٹ کا اندرونی حصہ دانتوں تلے دبا کر اپنے آنسوؤں کو روک لیتی ، کم از کم اُس وقت تک جب تک وہ جاوید کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی ۔۔۔

شازیہ کو یہ تو گوارا تھا کہ وہ اس اذیت کے خاتمے کے لئے جاوید کے خود بخود سدھر جانے یا اُس کو سدھارنے کا کوئی

طریقہ ہاتھ آنے تک کے وقت کا انتظار کر لے لیکن اُسے یہ گوارا نہیں تھا کہ جاوید کے سامنے اُسی کے بے بسی کے آنسو نکل پڑیں اور جاوید ترس کھا کر اُس کے ساتھ اپنا برتاؤ تبدیل کرے۔

وہ بچپن ہی سے ایسی تھی، پاپا جب اُسکی ماں کو گالیاں دیتے تھے تو وہ کبھی اپنے روم میں جا کر پاپا کے دیئے ہوئے کھلونے توڑ دیتی اور کبھی اپنی نوٹ بک پر اتنی زور زور سے پین چلاتی کہ صفحے ایڑھی ترچھی لکیروں سے کالے ہو کر تار تار ہو جاتے لیکن وہ پاپا کو کچھ کہہ نہ پاتی،

وہ اپنی ماں کو گالیاں نہ دینے کے لئے اپنے باپ کی منتیں نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔

حالانکہ جب پاپا اُس کے اور اُس کے چھوٹے بھائی عاصم کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے عاصم کو بازو گھما کر گیند پھینکتے اور شازیہ کی طرف لڑھکتی ہوئی گیند پھینکتے تو وہ تھوڑا سا موڈ بناتی اور پھر وآپس کھینلے لگتی۔۔۔۔۔

بات یوں ہے کہ عورت کو کسی بھی عمر میں مرد کے مقابل نازک یا کمزور سمجھا جائے تو وہ سہہ جاتی ہے لیکن اُسے کم تر یا حقیر سمجھا جائے تو وہ یقینی طور پر پلٹتی ہے اور چاہے مار کھائے یا پامال ہو جائے ایک بار وار ضرور کرتی ہے۔ 

، پاپا کے ساتھ پھر بھی ایسا کچھ چل جاتا لیکن جاوید کے ساتھ تو بالکل نہیں ، شادی کے دوسرے روز سے ہی وہ جاوید کو اپنا حق اپنا حصہ سمجھتی تھی، رشتے کا ایک مان ہوتا ہے کسی کے جسم و جان کی ضرورت بن جانے کا اپنا ایک غرور ہوتا ہے اور اُسے یہ بالکل گوارا نہ تھا کہ اُسے اپنا حق بھی بھیک میں ملے۔

جاوید شہر میں پیدا ہونے کے باوجود مزاج میں کہیں کہیں اپنے جاگیر دار دادہ سے مشابہ تھا, اس کے پاس اپنے دادا کی طرح زمین جائیداد تو نہ تھی لیکن مزاج میں وہی انا پرستی اور دوسروں کو اپنا مزارعہ سمجھے کی عادت سی تھی، اُن کی طرح شکار کھیلنے تو نہ جا سکتا تھا لیکن گھر میں ایک بندوق ضرور رکھی ہوئی تھی جسے ہر ماہ باقائدگی سے چمکا کر وآپس بیڈ روم کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا، جاوید اپنے دادا کی طرح بلا نوش تو نہیں تھا لیکن کبھی کبھی اپنی مما سے چھپا کر اور شازیہ کو ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ بتا کر ایک آدھ بوتل لے ہی آتا تھا، دادا عورت کو پاؤں کی جوتی سمجتے تھے جاوید اپنے تئیں بیوی کو ایک برتن کی حیثیت دیتا تھا۔

شازیہ کی ساس کے مطابق جاوید کے دادا بھی بہت سخت مزاج اور ضدی تھے لیکن جب جنسی ضروریات کی تسکین کی بات آتی تو وہ سر پر بٹھانے، پاؤں پکڑنے بلکہ بلک کر معافی مانگنے سے بھی نہ چوکتے۔۔۔۔اب شازیہ اپنی ساس کو کیا بتاتی کہ جاوید بھی بہت بد زبان ، سخت مزاج اور اڑیل تھا لیکن بستر پر اس کے مطالبات کی فہرست بہت طویل ہوتی جس میں رکاوٹ دور کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کر ڈالتا۔ دادا کو عورت پر صرف سرخ کپڑے ہی اچھے لگتے تھے، جبکہ جاوید شازیہ کو سرخ قمیض اور سفید شلوار بہت شوق سے لے کر دیتا تھا۔

صبح جاوید جب اُس کے ہونٹ چوم کر آفس کے لئے نکلا تو اُس نے اُسے بتایا تھا کہ آج وہ کچھ دیر کے لئے ممی جی کو ساتھ لے کر مارکیٹ جائے گی۔ جاوید نے مسکرا کر یہ کہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر ایک اور بوسہ ثبت کیا، باہر جاؤ گی تو میری زیادہ یاد ساتھ رہنی چاہئے۔

لیکن شام کو گھر آتے ہی جاوید کا پارہ کچھ چڑھا ہوا تھا، اس کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی تھی، آفس میں کسی کی بات سے توہین محسوس کرنا ، تھکاوٹ، گھر میں کوئی بے ترتیبی یا بد نظمی یا شدید جنسی ہیجان جس کی خاطر خواہ تسکین ممکن نہ ہونے کا لاشعوری احساس جاوید کو چڑ چڑا کر دیتا تھا۔۔۔۔

شازیہ یہ تو بھانپ گئی تھی کہ اب جاوید کسی موقع کی تلاش میں ہے لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ احتیاط کر کے اُسے کوئی موقع دیا ہی نہ جائے کیونکہ اگر کوئی وجہ نہ ہو گی تو جاوید اسی اکتاہٹ سے تلملا اٹھے گا کہ سب کچھ پھیکا پھیکا اور جامد سا کیوں ہے۔ اور وہی ہوا شازیہ نے نے جاوید کی خوشامد کے لئے ہلکا سا مسکراتے ہوئے چھیڑ خانی کے انداز میں پوچھ لیا

کیوں حضور ، نصیب دشمناں آج جناب کا منہ کیوں پھولا ہوا ہے 

.حرافہ، سالی بازاری عورت کی بیٹی

تیری ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔،میرے ساتھ تمسخر کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ فاحشہ۔

جاوید۔۔۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔آپ میری ماں کو۔۔۔۔۔۔شازیہ کے منہ سے بس اتنا ہی نکل سکا۔

ہاں تو کیا کہوں کتیا کی بچی، ایک کتیا کو انسان کتیا نہ کہے تو کیا کہے، حرافہ ، حرافہ، حرافہ۔۔۔ ایک بار نہیں سو بار کہوں گا۔۔۔

کبھی کبھی شازیہ کو لگتا وہ جو چاہتا ہے وہ کر نہیں پاتا اس لیے چڑ جاتا ہے، کبھی وہ سوچتی اُس کو جو چاہئے وہ اُس کو مل نہیں پاتا اس لئے وہ بگڑ جاتا ہے۔ اسی تذبذب میں شازیہ کبھی بہت کھل جاتی اور کبھی بالکل ملفوف ہو جاتی۔ جب وہ شیرنی کی طرح اُس کے آس پاس چکر لگاتی تو جاوید کے باڑے میں بندھا ہوا سانڈھ ایک چھوٹی سی بلی بن کر میاؤں میاؤں کرنے لگتا اور اگر وہ ایک گدھی کی طرح کان لٹکا کر سر نیہواڑے اپنی پیٹھ پیش کر دیتی تو وہ جھنجلا کر اُس پر برس پڑتا ۔ 
جاوید بہت بُرا سا منہ بنائے، لائٹ آف کئے بیڈ روم میں بیٹھاتھا، شازیہ جانتی تھی کہ اب وہ اپنا حق جانتے ہوئے اس انتظار میں ہے کہ اُ سے منایا جائے اور اُس سے معافی مانگی جائے۔ نہ وہ ٹی وی لاؤنج میں آئے گا نہ کھانا کھانئے گا نہ باہر واک کے لئے نکلے گا لیکن اگر وہ کچھ دیر اُس کی منت کرے گی معافی مانگے گی تو وہ ایک احسان کر کے راضی ہو جائے گا کیونکہ کل چھٹی ہے اور اُسے شازیہ سے آج رات کو بہت سا کام تھا۔ 

شازیہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جاوید کو بالکل نہ منائے، خود راضی ہوتا ہے تو ہو نھیں ہوتا تو نہ سہی لیکن اُسے پتہ تھا کہ اس طرح بات زیادہ بگڑے گی اور پھر جب تک شازیہ کی ماں آکر جاوید سے معافی نہیں مانگے گی وہ نہ مانے گا۔ شازیہ کو خود معافی مانگتے ہوئے فقط اپنی انا کو کچلنا ہوتا تھا لیکن جب اماں گھر سے آ کر جاوید سے معذرت کرتی اور جاتے ہوئے،گیٹ کے پاس رک کر شازیہ کو سرگوشی میں کہتی، بیٹی تُو میرا برا مت مانا کر، مجھے ساری زندگی تیرا باپ گالیاں دیتا رہا ہے اگر جاوید نے مجھے دو گالیاں دے دیں تو کون سی قیامت آ گئی، تو اُسے لگتا کہ اُس کی انا کی کرچیاں جاوید کے گھر سے نکل کر اُس کے باپ کے گھر تک کے سارے رستے پر بکھر گئی ہیں اور کبھی گلی میں کرکٹ کھیلتے لڑکوں کے درمیان، کبھی سبزی کے ٹھیلے والے کے پاس کھڑی عورتوں کے درمیان اور کبھی پڑوسیوں کے کار پورچ کے باہر کھڑے ہو کر جاوید اور اُس کا باپ وہ ساری کرچیاں اچھال اچھال کر کھیل رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں۔اُس کی ماں کے جانے کے بعد جاوید اکثر اسے کہتا، میں تمھاری بات نہیں کر رہا لیکن عورت کی یہی اوقات ہے، پہلے اکڑ دکھائی ہے اور پھر پاؤں میں پڑ جاتی ہے، اکڑ دکھانے کی ضرورت ہی کیا ہے، پہلے ہی عقل کو ہاتھ مار لینا چاہیئے ناں۔

وہ کچن میں کھڑی اپنے ساتھ ہی بحث میں الجھی ہوئی تھی۔ 

شازیہ تیری ماں خود ساری زندگی تیرے باپ سے گالیاں سن کر خاموش رہی وہ تیرا کیا دفاع کرے گی تیرا باپ تو اس دنیا میں ہی نہیں ہے، اوہوں۔۔۔ ہوتا تو کیا ہوتا ، ایک دو وہ بھی بک دیتا اور ممی ایک عورت ہونے کے باوجود تیرے لئے فقط ایک ساس ہے۔

وہ اپنی سوچوں میں گم کبھی شعور کے ساتھ اختلاط کر کے کوئی حل پیدا کرنے کی کوشش کرتی اور کبھی خود کو نفرت کے تاریک گوشے میں سر تا پا برہنہ دھکیل دیتی اسی آمادگی کے دوران کہیں سے ایک قطرہ اُس کی جبلت کے بطن میں ٹپک کر ایک ہی لمحے میں ایک نئی شازیہ کو ٹھرا گیا ۔۔۔ حرافہ ۔۔۔۔۔ اچھا تو میں حرافہ ہوں ۔۔۔۔ ہاں میں ایک فاحشہ بھی تو ہوں۔۔۔۔۔اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ رینگ گئی اور اُس کی آنکھوں میں ایک حاملہ عورت کی تسکین ایک غرور سا عود آیا ۔۔۔
وہ د بے پاؤں کچن سے نکل کر بیڈ روم کے دروازے سے بچتی ہوئی دوسرے کمرے میں اپنے وارڈ روب کی طرف بڑھ گئی اُس نے سرخ قمیض اور سفید شلوار پہنی، قمیض کے تینوں بٹن کھلے چھوڑ کر ، دوپٹے کو سرکنے کے انداز میں سینے پر ڈالا اور اپنے زیریں ہونٹ کو اپنے دانتوں کے نیچے سے آزاد کر کے آنسوؤں کو راستہ دیتے ہوئے بیڈ روم میں داخل ہو گئی۔۔۔ جب ذہن میں کوئی منصوبہ کوئی لائحہ عمل ہو تو انا ساتھ دینے لگتی ہے وہ بلا تامل جاوید کے پاؤں میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ بات شروع کرنے کے لئے معافی مانگنا ضروری تھا لیکن اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ کس بات کی معافی مانگے ، بضاہر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ کیا وہ نا معلوم غلطی کی معافی مانگے یا موڈ خراب ہونے کی وجہ پوچھنے کی معافی مانگے اگر وہ کسی ایسی بات کی معافی مانگے گی جو جاوید کے ذہن میں نہیں ہے تو بھی جاوید چیخ اٹھے گا کہ تمھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ تمھاری غلطی کیا ہے تو تم اپنی اصلاح کیسے کرو گی۔۔۔۔۔ اُس نے بات کرنے کی بجائے اپنے آنسوؤں کو گالوں تک پہنچایا اور غیر محسوس طریقے سے اپنا دوپٹہ سرکا کر اپنے دونوں ہاتھ جاوید کے پاؤں پر رکھ دیئے ، وہ اپنے جسم اور جاوید کی ضرورت کو اپنا وکیل بنا رہی تھی ۔۔۔

بات یوں ہے کہ جنسی عمل کیسے تکمیل کو پہنچانا ہے یہ مرد کی جبلت میں ودیعت شدہ ہوتا ہے اگر کسی مرد نے زندگی میں کبھی بھی قربت نہ کی ہو تب بھی وہ پہلی رات کوجانتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے کچھ یونہی مقاربت کے تجربے سے گزری ہوئی عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی کس ادا کی کیا قیمت ہے اور یہ کیسے وصول کی جا سکتی ہے۔۔۔۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ اکثر عورت کو ادا فروشی کی ابتدائی تربیت وہی مرد دیتا ہے جس کو وہ سب کچھ مفت میں پیش کرتی ہے۔

آج جیسے شیرنی اور گدھی کے انضمام سے ایک نئے حیوان نےجنم لیا تھا، شازیہ جاوید کی آغوش میں دھاڑنے لگتی تو اُس کی بے بسی اُس کو نیچے بٹھا دیتی اور جب وہ لیٹ جاتی تو سینے میں چبھی ہوئی کرچیاں اُس کو ایک زخمی درندہ بنا کر وآپس اوپر لے آتیں، آج جاوید کی حالت دیدنی تھی، وہ یہی تو چاہتا تھا، ایک جوالا مکھی ہو لیکن ہو اُس کے قابو میں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اڑیل مست گھوڑی ہو لیکن اُس کے ہاتھوں میں پکڑی باگوں سے زخمی اور بے بس ہو ۔۔۔۔۔ شازیہ جان گئی کہ جاوید کے چڑ چڑے پن کی کیا وجہ ہے لیکن اُس لمحے اُس پر یہ بھی انکشاف ہو گیا کہ جاوید کے باڑے میں بندھے جانور کو سانڈھ یا بلی بنانا اُس کے ہاتھ میں ہے نہ کہ جاوید کے بس میں۔

جاوید کے نرخرے سے بسمل کی طرح آوازیں نکل رہی تھیں اور پھر اچانک وہ آوازیں با معنی الفاظ میں بدل گئیں , جاوید آنکھیں بند کئے نشے کے انداز میں زیر لب، شازیہ کو گالیاں دے رہا تھا، شازیہ تیرا سحر تو کسی طوائف کی طرح ہے، تیرے جسم میں جیسے سات عورتوں کی گرمی اور نشہ بھرا ہوا ہے ، بازاری ، رنڈی مجھے نشے میں پاگل کر دے گی کیا۔۔۔جوں جوں وہ اُس کو غلیظ ناموں سے پکار کر دبوچتا ، شازیہ کی تسکین بڑھتی جاتی اور اُس کی حالت پہلے سے زیادہ مدہوش ہوتی جاتی۔ یہ گالیاں مختلف تھیں ، وہ اپنی بے بسی اور شازیہ کے سحر ، اُس کی جوانی کی جولانی کا اقرار اور اظہار کر رہا تھا۔ یہ معین سا فرق کم عمر و نازک اور کم تر و ناقص کے فرق جیسا تھا، یہ ایسے ہی تھا جیسے بچے کے ساتھ باکسنگ کھیلتے ہوئے اُسے مکہ مارو تو وہ ہنستا ہے لیکن غصہ کر کے دو انگلیوں کی چپت بھی لگا دو تو وہ بلکنے لگتا ہے۔

شازیہ نے آنکھیں موندے موندے ہی ہاتھ بڑھا کر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے جاوید کی چھپائی ہوئ چھوٹی سی بوتل نکالی اور ایک گھونٹ حلق میں انڈھیل کر باقی جاوید کے منہ کے ساتھ لگا دی۔ وہ جاوید سے بھی کچھ بلند آواز میں غرانے لگی،

وہ دھیرے سے شازیہ کے کان میں بولا خاموش نہیں رہو، تم بھی کچھ بولو، کچھ ایسا کہو جس سے آگ پھیلتی جائے۔ 

صبح جاوید کو آفس بھیج کر شازیہ باتھ روم کا دروازہ لاک کئے بغیر ہی شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اُس کو شاور کے نیچے بھیگتے ہوئے اپنے جوان بدن کا لمس اور بھر پور نظارہ ایک عجیب احساس تحفظ دے رہا تھا ۔۔۔۔۔

گلی میں بکھری ساری کرچیاں جیسے سینے کے اندر چلی گئی تھیں، ۔ 

اس بار اُس نے اپنی ماں کو فون کر کے جاوید کی بد کلامی کا رونا نہیں رویا تھا۔ 

، دو تین دن سکون سے گزر گئے جاوید آخری چپقلش کو بھول بھی گیا تھا ، اور شازیہ تو ۔۔۔۔۔، کچھ دن پہلے تک جو شازیہ جاوید کو دوائی کے بہانے بھی گھر میں پینے پلانے کا کچھ لانے دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ اب یہ سوچ رہی تھی کہ کیسے جاوید کا دھیان اس طرف لایا جائے کہ وہ ایک اور بوتل لے آئے۔

آج تیسرے چوتھے دن جب شازیہ کی ماں کا فون آیا تو وہ پہلے کی طرح ایک دم پھوٹ پڑنے کی بجائے تحمل سے بات کرتی رہی، ماں نے حال احوال پوچھ کر اُسے قران خوانی کے لئے آنے کا کہا۔۔۔۔۔ شازیہ نے خوش طبعی سے بات کی اور فون رکھ
دیا۔ 

جاوید پھر کچھ مائل تھا، ہلکی ہلکی گپ شپ اور بوس و کنار کا موسم چل رہا تھا، شازیہ کے اندر جنی گئی حرافہ بے چینی سے باہر آنے کا انتطار کر رہی تھی ۔لیکن کوئی رستہ نہیں مل رہا تھا۔

جاوید صبح آپ کے آفس جانے کے بعد میں کچھ دیر کے لئے اماں کے ہاں جاؤں گی،

کیوں کیا ہوا چھٹی والے دن خود لے جاؤں گا ناں، جاوید نے اُسے گود میں بھرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

نہیں کل اماں کے ہاں قران خوانی ہے ،بس دو گھنٹوں میں وآپس آ جاؤں گی۔۔۔

اچھا تو پھر ممی کو یا آسیہ کو لے جاؤ۔۔۔۔

ممی جی سے پوچھوں گی اگر جائیں تو

آسیہ کو تو نہیں لے جا سکتی ، قران خوانی کی محفل ہے اور اُس کے ماہواری کے دن چل رہے ہیں ، اچھا نہیں لگتا ناں۔۔

جاوید ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا۔۔۔

کیا بے ہودگی ہے شازیہ، جاہل ہو تم بالکل

ارے کیا ہوا، کیا کیا میں نے

تمھارے گھر میں ایسا چلتا ہوگا بے غیرت کی بچی ہمارے ہاں نہیں۔۔۔۔

ہم کس کییفیت میں بیٹھے ہیں ، کیا کر رہے ہیں اور تم مجھے میری جوان بہن کے بارے میں بتا رہی ہو کہ اُس کے۔۔۔۔۔۔

جاوید کی حالت ایسے بھوکے کی ہو گئی جو نوالہ منہ میں ڈالنے لگا تھا اور کسی نے اچانک اُسے بتا دیا کہ کھانے میں غلاظت ملی ہوئی ہے۔

وہ ہیجانی سے انداز میں اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا۔۔۔

شازیہ حیرت سے پاس بیٹھی حرافہ کو دیکھ رہی تھی جو اچانک اس کے اندر سے نکل کر بستر پراُس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔ 

جاوید کافی دیر کے بعد اپنے دھیان کو بٹا پایا لیکن اس بار کمرے میں بوس و کنار کی سرگوشیاں ایسے رینگ رہی تھیں جیسے سالن سے مکھی نکال کر دوبارہ کھانا شروع کرنے والا مزا آنے کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔

شازیہ کو خفیف سی شرمندگی ہوئی کہ اُس نے جاوید کو جذباتی دھچکا دیا لیکن جاوید کی گالی نے شرمندگی کے احساس کو ڈھٹائی میں بدل دیا اُدھر جاوید نے اپنا غصہ کسی مناسب موقع پر پوری شدت سے نکالنے کے لئے سنبھال لیا۔ 

شازیہ مہینے کے آخری ایام میں پورے ہفتے کے بعد نہا دھو کر پاک صاف ہوئی۔ دوپہر کو وہ مما کو لے کر مارکیٹ تک گئی اور کچھ زیر جامے اور دیگر چھوٹی موٹی اشیاء خریدیں، واپسی پر اُس نے مما کو سفید پھولوں والی ایک سرخ قمیض لے کر تحفہ میں دی ، گھر آ کر جب جاوید کی ماں نے قمیض پہن کر اُسے دکھائی تو اُس نے ضد کر کے انھیں پہنے رکھنے پر راضی کر لیا ۔ چھوٹے موٹے کاموں سے فارغ ہو کر سر شام ہی اُس نے مچھلی کا سالن بنا کر جاوید کو فون کیا ،

کیا بات ہے ، اور کتنا انتظار کرائیں گے

کیوں کیا ہوا بھئی، کیسا انتظار

شام ہونے کو ہے بس اب آ بھی جائیں، 

اور ہاں آتے ہوئے اپنی دوا کی بوتل ضرور لیتے آئیے گا، اب میرا گلہ بھی کچھ خراب رہنے لگا ہے، شازیہ نے ماؤتھ پیش میں سرگوشی کی۔

اندھا کیا مانگے ، دو آنکھیں، جاوید نے سب کام چھوڑے اور دوا کی بوتل لے کر گھر کی راہ لی۔

آج سانڈ باڑے کو توڑ کر باہر لپک رہا تھا، جاوید کی زمیںوں کا نالہ پوری تغیانی پر تھا ۔۔۔۔۔ اللہ اللہ کر کے وہ گھر پہنچا ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے ہی جاوید کا ذہن بیڈ روم میں گھوم رہا تھا۔اُس کی مہربان نظریں بار بار شازیہ کے کوہلوں کا جائزہ لیتیں اور وہ پھر سے ایک انگڑائی لے کر صوفے پر نیم دراز ہو جاتا ۔

کچھ دیر میں شازیہ خلاف معمول کھانے کی بجائے چائے کی ٹرالی دھکیلتی ہوئی ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی تو اُس کے پیچھے پیچھے جاوید کی امی اور بہن بھی تھیں، شازیہ نے ٹرالی آگے بڑھاتے ہوئے ممی جی اور آسیہ کو تو چائے دی اور جاوید کو سرگوشی کی، کھانا کمرے میں دوائی کے ساتھ ملے گا۔

جاوید کی ماں نے خاوند کے فوت ہونے کے برسوں بعد اس طرح کے نئے نویلے کپڑے پہنے تھے وہ سرخ قمیض اور سفید شلوار میں بالکل دس پندرہ برس پہلے کی طرح لگ رہی تھیں۔ جاوید کو انھیں ہشاش بشاش دیکھ کر ایک گونا طمانیت محسوس ہوئی، آسیہ اور ممی جی سے باتیں کرتے ہوئے اُس نے ایک دو بار کن اکھیوں سے شازیہ کی طرف دیکھا جو انجان بنی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ جاوید کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد سونے کا کہہ کر بیڈ روم میں گیا تو شازیہ نے اٹھ کر ٹی وی بند کر دیا، جاوید ۔کی بہن اور ماں اٹھ کر اوپر اپنے پورشن میں چلی گئیں۔ 

پسندیدہ ترین کھانا، تین چار پیگ اور پھر شیرنی اور گدھی کا آمیزہ، آج جاوید بادلوں میں تیرتا پھر رہا تھا، لیکن تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ نظر بچا کے نشے میں جھومتی ہوئی مدہوش شازیہ کو بھی حیرت سے دیکھتا جو اُس کے پر بن کر اُس کو اُڑا رہی تھی۔

جاوید نے شازیہ کو آغوش میں لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پسندیدہ سرخ قمیض اور سفید شلوار کو دیوار کے ساتھ پڑے سنگل صوفے کی طرف اچھال دیا۔ کمرے کی خاموشی سرگوشیاں کرنے لگی۔ اپنے خمار اور شازیہ کے بھر پور تعاون سے جاوید بہت جلد ہی اُس ترائی میں اترنے لگا جہاں پر رکنا اب اُس کے بس میں نہیں تھا، اُس نے انگیا سرکا کر اپنے ہونٹ آغوش میں پڑے مخملیں تھال میں سجے ہوئے خوشوں پر رکھ دیئے ۔

میری نئی انگیا کی کوئی تعریف نہیں،

ہوں ۔۔۔۔ بہت خوبصورت ہے، جاوید کے منہ سے الفاظ خود بخود گرنے لگے۔

آج ہی، دو ،لائی ہوں، ایک ممی کو دی ہے ، کالی والی، جو انھوں نے شام میں پہنی ہوئی تھی اور ایک یہ ہے، سرخ۔

شازیہ۔۔۔۔۔ جاوید کے حلق سے ایسی گھٹی گھٹی آواز نکلی جیسے کوئی اندھے کنویں میں اترا ہو اور تہہ میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے آواز دینے کی کوشش کر رہا ہو۔

شازیہ نے ہاتھ سرکا کر کھلی ہوئ بوتل اٹھائی اور دو خالص گھونٹ نیچے لیٹے ہوئے جاوید کے منہ میں انڈیل کر اُس کے اوپر ہچکولے لینے لگی۔ جاوید اور اُس کی زبان کے درمیاں رابطہ اور کمزور ہو گیا۔۔ 

جاوید کے نرخرے سے نکلتی ہوئ آوازیں خود بخود الفاظ کا روپ دھارنے لگیں، حرافہ۔۔۔۔ مارنے کا ارادہ ہے کیا۔

تُو کیا تیرے جیسی ایک اور بھی اس وقت آ جائے تو اُس کو بھی بے حال کر دوں۔۔

شازیہ نے جاوید کے سینے کے بال ہلکے سے کھینج کر کان کی لو پر زبان پھیرتے ہوئے سرگوشی کی۔ 

پتہ نہیں میرا اور ماں جی کی چھاتیوں کا دیکھنے میں سائز تو ایک ہی ہے لیکن مجھے یہ ذرا ڈھیلی ہے۔

اوہ ، شازیہ۔۔۔

اُن کے سینے تو اب بھی ایسے سنبھالے ہوئے ہیں کہ رشک آتا ہے۔۔۔۔

برسوں سے کسی نے پکڑے جو نہیں۔

جاوید کی زبان سے جملہ تو پھسل گیا لیکن کنواں جیسے پاتال میں بدل گیا ۔ 

نشے کے خمار میں ذلت کی کھٹاس گھلنے لگی۔۔ 

جاوید نے شیر کے پنجوں میں آئی ہوئی ہرنی کی سی نظروں سے ہوا میں جھومتی شازیہ کی طرف دیکھ کر ہاتھ جورٹے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا، چپ ہو جا رنڈی خدا کے لئے چپ ہو جا یا میرے اوپر سے اتر جا۔۔۔۔۔ یا توتۤو میرے دماغ کی نسیں پھاڑ دے گی یا پھر آج ممی کو بھی۔۔۔میری نظر میں۔۔۔۔

شازیہ نے نیچے لیٹے ہوئے جاوید پر ایک ذلت آمیز نگاہ ڈالی اور مزید جارحانہ جھٹکے دینے لگی

پلائی کی دیوار پر لٹکی بندوق بیڈ کے ہچکولوں سے نیچے گری اور پرانی لکڑی کا دستہ درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا۔

شازیہ طلاق کا خوف جاوید کے سینے پر تھوک کر ہاتھ سے ملتے ہوئے نشے میں بُڑ بُڑائی،

تیری ماں کی۔۔۔۔۔،

پہلے ہی عقل کو ہاتھ ۔مارنا چاہئے نا جاوید۔۔۔

بعد میں ہاتھ جوڑنے کا کیا فائدہ۔


----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


-------------------------------------------------------------------------






افسانے کی پسندیدگی اور قیمتی آراء کے لئے شکریہ۔ قاری کے فہم اور سراہے جانے سے ہی تخلیقی صلاحیت کو اشتہا ملتی ہے۔


افسانے پر بہت سی باتوں ، آراء اور تبصروں کے جائزے سے تین طرح کے سوالات یا اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں؛


اول: افسانہ بہت "کھلا" ہے اور بچوں، خواتین اور "مسلمانوں" کے پڑھنے یا تبصرہ کے قابل نہین ہے۔ 


دوئم: شازیہ نے طلاق کیوں نہ لی اور خود کو پامال کرنے کا ہی راستہ کیوں چُنا۔


سوئم: شازیہ نے اپنے خاوند کی بے جا زیادتی کی وجہ سے شادی کے باہر تعلقات بنانے کا راستہ کیوں نہ چُنا۔


چہارم: شازیہ نے شراب نوشی کیوں کی اور اپنے خاوند کو کیوں کرائی اور شراب کے نشے میں وہ کیسے ایک منصوبے پر عمل درآمد کر سکتی ہے۔


پنجم: کیا شازیہ حرافہ ہے اگر نہیں تو افسانے کا عنوان حرافہ کیوں ہےاور اگر شازیہ حرافہ ہے تو کس طرح۔


پہلے اعتراض پر تو مجھے فقط تاسف اور حیرت ہی ہوئی ہے،افسانے کی سیٹنگ کے مطابق ہم ایک جوڑے کے بیڈ روم میں ہیں اور اُن کی جسمانی، ذہنی و نفسیاتی کشمکش کی مبارزت دیکھ رہے ہیں، کیا کوئی عورت برقعہ پہن کر اپنے خاوند کے بستر پر بیتھے گی کیا اُسے جاوید کو بھائی جان کہنا چاہئے تھا، یہ بات قابل غور ہے کہ اس افسانے کو میں نے پہلے ہی تین پنیں لگا کر "مسلمان" بنا کر پوسٹ کیا ہے اس کا اصل ورژن جو تخلیق کے وقت قرطاس پر منتقل ہوا تھا اُس کے دو جملے کچھ یوں تھے۔۔۔۔"شازیہ اسی شش و پنچ میں تھی کہ وہ جاوید کو جاوید کی ممی اور اپنی ماں کے مابین کسی فرق کے نہ ہونے کا احساس دلانے کے لئے اپنے اندر جنی گئی حرافہ کا ساتھ دے یا اپنی جنسی طاقت جس کا ادراک اُسے حال ہی میں ہوا تھا کو استعمال کر کے معاملے کو سلجائے لیکن جیسے ہی جاوید نے ایک نخوت آمیز جھٹکے سے اُس کی انگیا کو سرکا کر اُس کے پستان کو بے حسی سے مسلنا شروع کیا اُس کے اندر نفرت کا الاؤ ایک بارپھر بھڑک اٹھا اور اُس نے حرافہ کو اپنے بیڈ پر بلانے کا کامصمم ارادہ کر لیا۔"۔


۔"شازیہ کو علم ہو چکا تھا کہ سانڈکو بلی بننے دینے سے کیسے روکنا ہے، لہذا جیسے ہی جاوید فراغت کے قریب آتا وہ کچھ دیر رک جاتی اور اُس کے سینے کے بالوںکو نوچ کر کان کی لو کو کاٹ کر اُس کا دورانیہ کچھ اور بڑھا دیتی، یہی وجہ تھی کہ جاوید جس کے ذہن کے کسی نہاں خانے میں دبی کمزوری اور محرومی کو آج پہلی بار یہ تفاخر مل رہا تھا کہ وہ بہت لمبی ریس کا گھوڑا ہے ، اپنی ماں کے بارے میں انتہائی تکلیف دہ تصورات کے حملے کے باوجود شازیہ کو پرے دھکیلنے اور انتقام کا یہ کھیل روکنے کے قابل نہ تھا"۔

حیرت اس بات کی ہے کہ اُس منٹو کو ہم ایک اہم ترین افسانہ نگار مانتے ہیں جس نے ٹھنڈے گوشت میں یہ سطریں لکھیں،

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا “ لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔“

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ “ کلونت، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔“

کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، “ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔“

ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، “ ہونے دے آج ظلم۔“ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتیھڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، “ ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے لکھتا ہے"اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔۔۔۔ راستے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ “ پھر کیا ہوا؟“

ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، “ میں نے ۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن “

منٹو اپنے افسانے کھول دو میں لکھتا ہے: ۔۔۔

ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑي ہوئي لاش کي طرف ديکھا، اس کي نبض ٹٹولي اور سراج الدين سے کہا کھڑکي کھول دو۔

سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئي ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔ ۔۔۔ ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔ ۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔

معروف افسانے بُو کی سطور دیکھیئے:۔۔

اور پھر ہم ہر افسانے پر منٹو کے ستر برس بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ افسانہ "مسلمان" کیوں نہیں ہے، میں کسی قاری سے یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ افسانے کو پڑھتے ہوئے انتہائی لبرل یا فحش پسند بنے، میں تو کہتا ہوں کہ آپ مولوی بن کر افسانے کا مطالعہ کریں کیونکہ اس معاملے میں اسلامی شادی میں میاں بیوی کی ذمہ داریاں قسم کی کتابیں رٹ کر مولویوں کا مطالعہ اور تجربہ زیادہ وسیح اور بالغ نظر ہوتا ہے۔

اگر افسانے کو "ٹھنڈا " کیا جاتا تو کیا ایسے لکھنا مناسب تھا: شازیہ کا خاوند جاوید تقریبا روزانہ ہی اس کی ماں کو نازیبا گالیاں بکتا تھا، شازیہ نے طلاق لینے یا غیر مذہبی تعلقات بنانے کی راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے جاوید سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور ایک دن اُس کے مخصوص جذبات کو خوب ابھار کر عین عمل مباشرت کے دوران جاوید کی ماں کے اعضاء مخصوصہ کے نام اور ہیت کے بارے میں گفتگو کر دی جس سے جاوید کو نہایت ذہنی کوفت ملی اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا "۔

یہ کیا ہے، پرائمری کے بچوں کی کلاس، تبلیغی جماعت کا اجتماع یا ماں بیٹی کے درمیاں ہونے والی گفتگو، یہ تو دو دوستوں کے مابین ہونے والا آزاد سا مکالمہ بھی نہیں ہے۔

دوسرے سوال کا جواب کہ شازیہ نے طلاق کیوں نہ لی ؛

میرا سوال یہ ہے کہ شازیہ طلاق کیوں لیتی، کیا اس وجہ سے کہ اُس کا خا وند زبان دراز اور بد کلام ہے، ہم صدیوں اس بات کا رونا روتے رہے کہ عورت طلاق نہیں لے سکتی، وہ ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہے اور اب نئی عورت کو ہم نے بہت تیر مار کر یہ یقین دہانی کرانا شروع کر ا دی کہ تم خوش نہیں ہو تو تم طلاق لے لو، میرا سوال یہ ہے کہ آخر راہ فرار ہی کیوں، طلاق تو اس صورت میں لینی چاہئے جب خوش نہیں ہو اور کوئی حل بھی پاس نہیں ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ بزدل جنگ میں پچھلے صفوں میں بھاگ جاتے ہیں اور جو زیادہ بزدل ہوتے ہیں وہ دشمن کی صفوں میں داخل ہو کر دشمن کی پچھلی صفوں تک چلے جاتے ہیں، ، خطرے سے گھبراکر بزدل بھاگ جاتے ہیں یا اس کو سینے سے لگا لیتے ہیں جبکہ ایک باہمت ایک دلیر انسان تو اپنی جگہ پر رہ کر فرار ہوئے بغیر جنگ ختم کیئے بغیر لڑ کر دکھاتا ہے، شازیہ ایک مضبوط اور دلیر لڑکی ہے وہ خاوند کی بے غیرتی سے دل برداشتہ ہوتی ہے لیکن وہ مضبوط کردار اور باہمت ہے وہ دوسرے مرد اور طلاق کی طرف آمادہ ہی نہی ہوتی، " آپ افسانے کے فقط ان دو الفاظ پر غور کریں " طلاق۔۔۔ نہیں طلاق کیوں؟؟؟؟؟؟؟" وہ یہ نہیں کہتی کہ ہائے میں تباہ ہو جاؤں گی ، طلاق کا داغ لگنے سے میری زندگی ختم ہو جائے گی، بلکہ وہ کہتی ہے کہ ، طلاق کیوں، وہ جاوید کو ایک آسان راہ فرار نہیں دینا چاہتی بلکہ اپس کو اُسی کرب سے گزارنا چاہتی ہے جس میں کہ وہ خود مبتلا ہے۔"۔

لوگ کہتے ہیں کہ شازیہ کی ماں کا زیادہ بیان نہیں آیا، افسانے میں جتنی ضرورت تھی اتنا بیان بغیر کسی کنجوسی کے آگیا باقی بے مقصد تھا، کیا شازیہ کی ماں کا ایک ہی جملہ کافی نہیں کہ "بیٹا تم میرا برا کیوں مناتی ہو، مجھے ساری زندگی تمھارا باپ گالیاں دیتا رہا ہے آج اگر جاوید نے دو گلایاں دے دیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔

(tranquiliser gun) شازیہ نے شراب نوشی شروع نہیں کی بلکہ ایک حیوان کو قابو میں کرنے کے لئے 

کا استعمال کیا ہ۔۔۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ وہ بہت احتیاط سےخود فقط ایک گھونٹ لیتی ہے اور جاوید کے منہ کے ساتھ ہمیشہ نیٹ بوتل لگاتی ہے۔ اور ویسے بھی جب عورت کی انا مجروح ہوتی ہے تو وہ نشے میں نہین آتی بلکہ انتقام کے پورا ہونے پر بغیر پیئے ہی مستی میں آنا شروع ہو جاتی ہے۔،

جن لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ شازیہ نے حرام کیا اور اپنی حیثیت سے گر گئی، عامیانہ حرکت کی اُن سے گزارش ہے کہ فقط ایک دن ایک ایسے شخص کے ساتھ گزاریں جو اس درجے واہیات گالیاں بکے اور آپ کچھ نہ کر سکیں۔

ہاں شازیہ عام معنی میں ایک حرافہ نہیں ہے، حرافہ کا مطلب ہے پیشہ کرنے والی، تجارت کرنے والی، انحراف کرنے والی، بغاوت کرنے والی، کیا افسانے میں لکھا نہیں آیا کہ اس نے تینوں بٹن کھلے چھوڑ کر آنسوؤں کو راستہ دے کر دونوں ہاتھ جاوید کے پاؤن پر رکھ دیئے وہ، اپنی جنسی کشش کا جاوید کی ضرورت سے سودا کر رہی تھی، تجارت کر رہی تھی،

کیا اُس معصوم کی علامتی حرفت کے لئے یہ جملہ کافی نہیں " یہ ستم ظریفی ہےکہ عورت کو اکثر ادا فروشی کی ابتدائی تربیت وہی مرد دیتا ہے جس کو وہ سب کچھ مفت میں پیش کر دیتی ہے"۔ 

حرافہ نے تو شازیہ کی جبلت میں جاوید کی نفرت کا قطرہ گرنے سے جنم لیا،، شازیہ کی ماں کی جبلت اتنی زرخیز ہوتی تو وہاں بھی ایک حرافہ جنم لے لیتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

وہ تو ایک باکردار اور دلیر لڑکی ہے جو کوئی بھی راہ فرار اختیار نہیں کرتی، افسانے کا یہ عنوان تو ایک طنز ہے اگر شازیہ کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے اور دوسرے زاویے سے یہ صبح بیدار ہو کر ٹوٹے پھوتے شکست خورد اور ذلیل و رسوا ہوئے جاوید کا دیا ہوا عنوان ہے کہ اگر عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنا ہے ، اُس کو گالی بکنا ہے تو پھر خود کو اتنا مضبوط اور جنسی ضروریات پر حاوی بھی رکھو، ورنہ یہ عورت، یہ حرافہ تو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...