Saturday, January 3, 2015

سماجی حالات اور تخلیقی عمل۔


یہ سچ ہے کہ تخلیقی عمل حبس ، جبر اور مشکل حالات میں زیادہ تقویت پکڑتا ہے اور زیادہ تعدد سے وقوع پذیر ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حبس یہ جبر جب خارج میں ہو جب یہ کسی جابر کی طرف سے معاشرے کے رگ و پے میں زہر بن کر سرایت کرنا چاہتا ہو جب یہ معاشرے کے وجود کے کسی ایک حصے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہو اور تخلیق کار کا حساس ذہن اس سے کراہت کھاتے ہوئے اُس کی طبع سلیم اس سے مکدر ہوتے ہوئے اور اُس کی بصیرت مستقبل کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلانا چاہے ، معاشرے کے وجود پر نکلتے ہوئے اس پھوڑے کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرنا چاہے تو تھیکی ادبی تخلیق وجود میں آتی ہے لیکن جب معاشرہ اس سرطان کا عادی ہو چکا ہو جب پورے وجود کو جمود اور جبر نے مفلوج کر دیا ہو، جب نفرت اور پستی کا زہر نس نس میں پھیل چکا ہو اور احساس زیاں بھی جا چکا ہو ، جب معاشرے کے وجود کا ایک عضو ہوتے ہوئے تخلیق کار کا جسم بھی نیلا پڑ رہا ہو تو پھر تخلیقی عمل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، رومانیت پسندی اپنی جگہ بڑے بڑے دعوے اپنی جگہ لیکن زندگی کے حقائق اپنی جگہ اٹل ہوتے ہیں اور تخلیق کار اپنے معاشرے اور اُس کے شب و روز سے الگ تھلگ نہیں ہوتا وہ بھی اُس زخم کا اُس روگ کا اتنا ہی بلکہ اُس سے زیادہ درد اور نقصان محسوس کرتا ہے جتنا کہ معاشرے کا ایک عام فرد۔ 

تم کہہ رہے ہو بلکہ ناراض ہو رہے کہ میں انشائیہ لکھوں ، میں کچھ "ہلکا پھلکا" کچھ لطیف سا لکھوں ، مجھے اس بات سے فلم داغ کے لئےاختر یوسف کی لکھی اور مہدی حسن کی مدھر آواز میں آساوری میں گائی ہوئی وہ لائینیں یاد آ رہی ہیں۔۔۔

                      تم ضد تو کر رہے ہو، ہم کیا تمھیں سنائیں ، نغمے جو کھو گئے ہیں اُن کو کہاں سے لائیں۔ 

یہ انشائیہ بھی تو نثر کا نغمہ ہی ہے، لطیف ، ہلکا پھلکا، چلتے چلتے، کسی ضمن میں اپنی بے نیاز سی ادھوری سی رائے، لیکن جب میرے ملک میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسان مذہب ، غیرت اور آٹے کے نام پر لال بیگوں، کٹھملوں اور مکھی مچھروں کی طرح مسلے ، مارے اور دبائے جا رہے ہوں جب سینکڑوں مریض فقط بجلی خسرے کے ٹیکے نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہوں جہاں طالبعلم سوشل میڈیا پر دوسری اقوام کے نونہالوں سے ترغیب و تقابل کے جذبات سے لبریز ہو کر اپنے گھر باہر کو روشن اور خود کو تعلیم یافتہ کرنے کی آرزو اور سعی کرنے کا ارادہ کریں تو والد انھیں یہ کہہ کر ڈانٹ دے کہ "بے ہودہ اور لغو" سوچوں میں نہ پڑو اپنے لئے نوکری تلاش کرو تو میں کیسے ہلکا پھکا لکھوں میں کیسے نغمہ لکھوں میں تفنن کہاں سے لاؤں۔ 

کیا تم نے کبھی کسی طمانچہ کھاکر روتے ہوئے یتیم کے ہاتھ میں کھلونا دے کر دیکھا ہے ، ہاں شاید وہ چپ ہو جائے یا ہنس بھی دے لیکن وہ ہنسی ایک بیوہ کے چہرے پر اپنے خاوند کی پینشن ملتے وقت آنے والی طمانیت سے کم مضحکہ خیز تو نہیں ہوتی بس اسی طرح کا انشائیہ لکھا جا سکتا ہے، کم از کم میں تو ایسے دور میں وہی لطافت اور وہی شگفتگی تخلیق کر سکتا ہوں۔

بیوہ سے یاد آیا کہ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے سماجی حالات اور ان کی سنگینی عورت کے ساتھ کیا کر رہی ہے ، ہم تو انفرادی طور پر مرد بلکہ فقط خاوند کے ایک سماجی عہدے کو تھوڑا کوس کے حقوق نسواں کا "فرض "ادا کر دیتے ہیں لیکن ذرا غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ معاشرتی جبر ، غربت، مہنگائی ، بے روزگاری، ، لوڈ شیڈنگ اور سب سے بڑھ کر یہ عدم برداشت اور دہشت گردی جیسی موذی لعنتیں یہ مرد کا تو جینا دوبھر کر ہی رہی ہیں لیکن انھوں نے بالواسطہ عورت کو ایک زندہ لاش بنا دیا ہے، نسوانیت ہو، شادی بیاہ کے گیت اور ڈھول ڈھمکے ہوں گھر گھرہستی کا غرور ہو یا باہر آ جا سکنے کی تفریح ہو سب کچھ ہماری عورت سے چھنتا جا رہا ہے، بحیثیت مجموعی ہماری عورت ایک ہسٹریائی کیفیت کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ عورت اور تہذیب و ثقافت ، عورت اور زبان و محاورہ ، عورت اور خاندان و معاشرہ یہ سب لازم و ملزوم ہے لوگ کہتے تھے گھر میں جینے مرنے کی رونق عورت سے ہے لیکن جب خوف و پژمردگی ہو گی جب حبس و جمود ہوگا تو عورت ایک سوکھی بے ثمر شاخ کی طرح ہی ہو گی۔ مرد مرا تو ایک مرد مرگیا لیکن کس کا خاوند گیا ، کس کا بھائی گیا، کس کا لخت جگر گیا کس کے سر سے سایہ اٹھ گیا اور پھر اُس کو بولنے کا رونے کا اپنے آپ کو اس لڑائی سے لاتعلق بتانے کا حق بھی نہیں۔

مذہب اور ہمارے مذہبی جذبات کو ہی لے لو (ہاں یہ دونوں الگ الگ اشیاء ہیں)۔ سنو، خدا کا تصور اور وجود ایک داخلی شے ہے، یہ 

ایک معروضی نہیں موضوعی مسئلہ ہے اور عقیدہ تو خالصتا ایک ذاتی معاملہ ہے۔ کسی مذہب ، مت یا عقیدے نے مذہب کی پوجا پاٹ کا کہیں حکم نہیں دیا لیکن کیا ہم مذہب اور عقائد کے پجاری نہیں ہیں۔ اچھا ایک بات بتاؤ اگر ہم میں سے کسی کو ایک انعامی بانڈ کے کسی ایسے سیریئل نمبر کا پتہ چل جائے جس پر یقینی طور پر ایک کروڑ کا انعام نکلنا ہو تو ہم کیا کریں گے کیا ہم لوگوں کو روک روک کر اور فیس پک پر اُن کی وال کالی کر کر کے انھیں بتائیں گے کہ فلاں نمبر کے بانڈ پر انعام نکلے گا ، شاید نہیں بلکہ ہم تو وہ سارے نمبز یا تو خود خرید لیں گے یہ اِس راز کو چھپانے کی کوشش کریں گے ، قرعہ اندازی کے پلاٹوں کے لئے ہم ایسا ہی کرتے ہیں، اچھی نوکری کے لئے ویزوں کے حصول کے لئے اچھے رشتوں کے لئے بچوں کے داخلوں کے لئے ۔۔۔۔۔تو پھر مذہب اور عقیدے کے لئے کیوں اس سے متضاد۔۔۔اگر ہمیں یقین ہو کہ ہمارا فائدہ ہے تو ہم اس "شے" کو بھی اپنے تک رکھیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ لاشعوری طور پر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ایک مشکل اور خشک راستہ ہے سو کچھ اوروں کو بھی ساتھ ملا لو ، یا بھر نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا اور ہم سب انبیاء ہیں جو دوسروں کی آخرت کے لئے اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ پھر مذہب جیسی شے کے نام پر تنفر اور قتل جیسا پست اور گھنوؤنا فعل، کیا ستم ظریفی ہے، کیا اس سے بڑا لطیفہ اس سے گہرا طنز اور اس سے زیادہ بے ہودہ تمسخر کچھ اور ہو سکتا ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ 

بھئی مجھے نہیں معلوم کہ تاریخ نے کبھی کہیں اس سے بڑا مذاق اس سے بھیانک تمسخر دیکھا ہو کہ ایک ایسے مذہب کے نام پر ہزارہا انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے جوایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، ۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...