Saturday, January 3, 2015

ابھی ٹُک روتے روتے۔


دفتر میں ہفتے کے دِن آدھی چھٹی اور اتوار کو چھٹی ہوا کرتی تھی۔ ویسے تو یاروں دوستوں کے ساتھ محفل ہفتے کی شب کو ہوا کرتی کیونکہ صبح دیر تک سونے کی آزادی ہوتی تھی لیکن اکثر شب جمعہ بھی دیر تک جاگتے رہتے کیونکہ ہفتہ کا آدھا دفتری دن بھی خاصہ ہلکا پھلکا ہی لگا کرتا تھا۔

ایک جمعہ کو ایک دوست کی ٹیلرنگ کی دکان پر گپ شپ اور تاش کی ایسی بازی لگی کہ صبح کی اذان نے ہی آنکھیں کھولیں، اُس خبیث کو کچھ ارجنٹ جوڑے سلائی کرنے تھے اور ہم اِس لئے سستی کرتے رہے کہ صبح ہفتہ ہے بس یہ دفتر گئے اور یہ آئے، کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ لیکن صبح جب بغیر سوئے منہ ہاتھ دھونے کی کوشش کی تو معاملہ سنجیدہ ہونا شروع ہو گیا اور دِن کے وقت دفتر میں یہ حالت ہو گئی کہ آنکھوں میں پانی سر میں چکر اور پیٹ میں ساری رات کی پھونکی ہوئی سگریٹ کی وجہ سے مروڑ اٹھنے لگے۔

اللہ اللہ کر کے ایک بجا اور ہم نے سب کچھ جوں کا توں چھوڑا اور گھر کی راہ لی۔ گھر تک کا سارا رستہ جلدی جلدی ماں جی کے ہاتھ کا کھانا کھانے، لسی کے دو گلاس چڑھانے اور پنکھے کے نیچے لمبی تان کر سونے کے خیالوں میں ہی گزرا ۔

ابھی اپنے گھر کی گلی کا موڑ کاٹا ہی تھا کہ نکڑ پر کھڑے ایک پڑوسی نے عجب رونی سی صورت بنا کر کہا "بڑا افسوس ہوا"۔

۔۔۔جی۔۔۔۔

،لیکن اُس کے ہاں کس کی مرضی چلتی ہے، جو اُس کو منظور

کیا ہوا بھائی کس بات کا افسوس ہے آپ کو

ہم نے اپنی سوجی ہوئی آنکھیں نیم وا کرتے ہوئے پوچھا۔ 


ہائے، اللہ غریق رحمت کرے آپ کے خالو کے پھوپھا فوت ہو گئے ہیں، آپ کے گھر والے وہیں ہیں، کوئی دس بجے صبح کے قریب گئے تھے، وہ تو گھر کی چابی میرے حوالے کرنے لگے تھے کہ آپ آ جائیں تو دے دوں لیکن میں نے کہا ، توبہ توبہ اب ایسا بھی کیا ظلم، جیسے ہی آپ آتے ہیں میں انہی قدموں مرحوم کے گھر بھجواتا ہوں۔ 

ہمیں لگا ہمیں غصہ سا آ رہا ہے لیکن کمال ہنر مندی سے ہم نے احسان مندی والی نظریں بناتے ہوئے ان کے چہرے کو کچھ دیر گھورا ایک حسرت بھری نگاہ سامنے اپنے گھر کے دروازے پر لٹکے تالے پر ڈالی اور وہیں سے وآپس ہو لئے۔ 

پہلے خالو کے گھر پہنچے اور اڑوس پڑوس سے ان کے پھوپھا کا پتہ پوچھتے پاچھتے کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد پیدل ہی فوتگی والی گلی تک جا نکلے۔ بھوک ، پیاس ، رتجگے اور پھر اسی حالت میں گلی گلی پیدل چلنے کی وجہ سے عجیب حالت ہو رہی تھی، بال بکھرے ہوئے، چہرے پر شائد مردنی چھا گئی ہو گی، آنکھوں کے گرد سوجن تو صبح سے ہی تھی اب خالی پیٹ کے مروڑوں کی وجہ سے چال بھی ایسی ہو رہی تھی جیسے ابھی بچہ جن کر سیدھے ادھر ہی آ رہے ہوں۔

جنازہ گھر سے نکل کر کچھ ہی دور پہنچا تھا، گلی میں خالی کرسیاں پڑی تھیں اور کچھ عورتیں کھڑی بین کر رہی تھیں کرسیاں دیکھ کر بیٹھ کر ہی سو جانے کا بڑا من چاہا لیکن عورتیں دیکھ کرہم نے جلدی جلدی جنازے کے ساتھ جا ملنےمیں ہی عافیت سمجھی۔

پچھلے حصے میں کوئی جاننے والا یا گھر کا کوئی فرد نظر نہ آیا، ہم کچھ آگے بڑھے اور میت کے ساتھ ہو لئے، ایک دو جاننے والے میت کو کاندھا دئے ہوئے چل رہے تھے ہمیں دیکھ کر ایک عزیز بولے ، تم پہنچ گئے، یہ سنتے ہی ایک صاحب تیزی سے ہماری جانب لپکے اور چلتے چلتے اپنی بازو ہماری گردن میں ڈال کر اپنا سارا وزن ہمارے کندھے پر منتقل کر کے دھاڑ مار کر رونے لگے، روتے روتے بولے بس میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ پر اس وقت کیا بیت رہی ہو گی، ہائے اپنا خون اور میت کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا، ۔۔۔۔ بس نصیب کی بات ہے، پندرہ منٹ، اگر پندرہ بیس منٹ پہلے آ جاتے آپ تو دیدار ہو جاتا۔ جی جی ایسا ہی ہے کہتے ہوئے ہم نے اپنی گردن چھڑانے کی ہلکی ہلکی جسارت کرنا شروع کی لیکن ابھی ان کی بھاری بھر کم بازو پوری طرح سے پھسلنے بھی نہ پائی تھی کے آٹے کے تھیلے کی طرح دھپ سے ایک اور بازو ہماری گردن پر آ ن گری، ایک لمحے کے لئے تو جی چاہا کہ پیچھے مڑ کر۔ منہ کے اوپر۔۔۔ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر فورٰا موقع کی نزاکت کا احساس ہوا ۔ گردن موڑ کر دیکھا تو ایک خاصے کھاتے پیتے سے دکھنے والے بزرگ اپنی بند آنکھوں پر عینک درست کرتے ہوئے ہم سے لپٹ رہے تھے، پہلے تو کچھ بولے بغیر دل ہی دل میں روتے رہے، کوئی بیس قدم کے بعد انہیں شاید احساس ہوا کہ ہم چل بھی رہے ہیں، ہمارے سینے سے سر اٹھا کر اپنی بالکل خشک آنکھوں سے ہمارے چہرے کو گھورتے ہوئے گویا ہوئے، بہت کمزور ہو گئے ہو، حالت تو دیکھو کیا ہو رہی ہے رو رو کر آنکھیں سوج رہی ہیں اور چہرہ سوکھی روٹی کی طرح ہو رہا ہے، روٹی کا نام سنتے ہیں ہمارے پیٹ میں ایک ٹیس سی اٹھی نجانے ابھی اور کیا کیا سننا باقی تھا کہ کہیں سے ایک فرشتے کی آواز آئی نیں چاچا یہ مرحوم کے صاحب زادے نہیں ہیں وہ تو ابھی پہنچ ہی نہیں پائے۔ ان صاحب نے ہمارے گلے سے بازو ہٹا کر ہمیں ایسے چھوڑا جیسے مرحوم کو ہم نے ہی مارا ہو۔ دیگر لوگ

بھی ہماری طرف دیکھ دیکھ کر استفہامیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔


ہم بالکل اُسی طرح تمام ہجوم سے ایک ایک قدم کر کے پیچھے ہونے لگے جیسے چلتے ٹریفک میں پٹرول ختم ہوجانے کی وجہ سے کوئی 

گاڑی جھٹکے کھا کھا کر سب سے پیچھے رہنا شروع ہو جاتی ہے۔ 

لیکن ٹریفک وارڈن نے جھٹکے کھاتی گاڑی کو بھی پکڑ لیا ، اچانک خالو نے کاندھے پر ہاتھ رکھا ، کیا بچوں کی طرح پیچھے پیچھے کھسک رہے ہو، چلو میرے ساتھ آگے چلو آج کسی کے جنازے کو کاندھا دو گے تو کل کو کوئی ہمارے جنازوں کو بھی اٹھائے گا پتہ نہیں اُن کی بات میں کوئی جادو تھا یا بھوک پیاس اور تھکاوٹ کی وجہ سے اپنا وجدان بہت ارتکاز پر تھا ، بجلی کے کوندے کی طرح اپنے سارے عزیز رشتہ دار وں کی میتیں آنکھوں کے سامنے گھوم گئیں اور ہم کانپ کر آگے بھاگے۔ 

خالو نے میت کا اگلا کونا سنبھالہ تو ہم از راہ ادب پیچھے ہو کر کندھا دینے ہی والے تھے کہ پہلے سے موجود صاحب کسی فوجی جرنیل کے طرح غرائے ۔۔۔اوں ہوں بھلے مانس ، پہلے آگے سے شروع کرتے ہیں اور پھر پیچھے پھر دوسری طرف آگے اور پھر آخر میں پیچھے، ۔ اُن کی نصیحت توجہ سے سُن رہے تھے لیکن اتنی دیر میں خالو پیچھے ہوئے اور سیدھا ہمارے انگوٹھے پر کھڑے ہو کر پچھلے کونے کو کندھا دے دیا۔۔۔اوں ہوں کیا ہے بھئی ، کیا کبھی جنازے کو کندھا بھی نہیں دیا تم نے۔۔۔۔ جی نہیں ، جی ہاں ، میں آگے آیا ، اور ہم نے بھاگ کر جنازے کو کندھا دے دیا۔۔۔۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ چار پائی کی روزن سے میت سے درخواست کروں کہ حضرت کچھ جگہ ہمارے لئے بھی رکھئے گا بس ہم بھی آ ہی رہے ہیں لیکن پھر کچھ ڈر سا لگا کہ تازہ تازہ فوت ہوئے ہیں کہیں از راہ مروت کچھ انتظام کر ہی نہ دیں اور ہمیں بھوکا پیاسا اور رتجگے میں ہی روانہ ہونا پڑ جائے۔ 

پتہ نہیں کیسے سفر کٹا ، ہمیں اتنا یاد ہے کہ ہم ایک لمبی قطار میں لگے ایک بہت بڑی سے دیگ والے سے اپنی جھولی میں بریانی اور جوس کے ڈبے لینے ہی لگے تھے دیگ والے نے ایک دم اللہ اکبر کا نعرہ لگا دیا ، آنکھ کھل گئی اور دیگ والا پھر سے امام مسجد بن کر نماز جنازہ پڑھانے لگا۔۔۔وہ تو شکر ہے کہ نماز جنازہ میں رکوع و سجود نہیں ہوتے ورنہ شاید ہماری آنکھ وہاں بھی نہ کھلتی۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ کر کے جنازہ دفنایا گیا اور ہم کچھ سرخرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونے ہی لگے تھے کہ خالو بولے

تم یہ اشیاء لے کر گھر پہنچو،اندر نہ گھس جانا باہر کرسیوں پر ہی بیٹھنالوگ دعا کے لئے آئیں گے، میں بھی بس پہنچتا ہوں پھر تم اپنے گھر والوں کو لے کر بے شک نکل جانا۔

مرتا کیا نہ کرتا، چیزیں خالو کے ہاتھ سے لیں اور ٹانگیں گھسیٹتے فوتگی والے گھر کی طرف لڑھک پڑے۔

گھر میں داخل ہونے کے لئے دروازے پر ہاتھ ہی رکھا تھا کہ ایک خاتون نے کسی کو دیکھنے یا بلانے کے لئے دروازہ کھولا، ہائے ہائے مردوں کے بیٹھنے کی جگہ باہر ہے بھئی، اتنی کرسیاں کس لئے بچھائی ہیں، چلے آتے ہیں منہ اٹھائے سیدھے زنان خانے میں، ہم بند آنکھوں سے وآپس پلٹے ۔۔۔۔ خالو کی دی ہوئی اشیاء پاس ہی رکھ لینے میں بہتری سمجھی اور باہر گلی میں بچھی کرسی پر آرام سے بیٹھ گئے، ایک فوتگی والے گھر کی سنسان گلی میں سائے میں لگی کرسی پر بتیس گھنٹوں کے رتجگے کی حالت میں بھوکے پیاسے بیٹھ کر جاگناوصال یار سے بس کچھ معمولی سا ہی کم ہوا ہو گا، اچانک دروازہ کھلا اور چھوٹا بھائی بھاگتا بھاگتا آ کر کان میں بولا ، بھائی جان والدہ کہہ رہی ہیں بعد میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہوجائے گا ، کیا ہم ابھی گھر نکل چلیں۔ ہائے۔۔۔جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔۔۔، من چاہا بھائی کا منہ چوم لوں ، لیکن حسرت و بے بسی کے مارے منہ سے بس ایک آہ سرد ہی نکل سکی اورہم نے ٹھیٹ مشرقی دلہن کی طرح ، بس گردن ہلا کر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...