Sunday, January 4, 2015

غلط فہمی۔



میں آپ لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ یہ سارا فساد یہ سب خرابی اِس اسلام کی وجہ سے ہے


اس سے جان چھڑا لو، اسے اپنے بیچ میں سے نکال پھینکو تو امن ہو جائے گا ، سب مسائل سے جان چھوٹ جائے گی۔


توبہ توبہ، اللہ کا نام لو عارف ، توبہ کرو ،کیسا کفر بک رہے ہو


عبداللہ دوکاندار اپنے دونوں کانوں کو پکڑ کر باقائدہ کھینچتے ہوئے بولا وہ توبہ کرتے ہوئے ہمیشہ کانوںکے ساتھ ناک کو بھی پکڑا کرتا تھا لیکن اسے یاد تھا کہ محلے داروں کے دکان پر اکھٹے ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے اُس نے سو روپے پاؤ اور پچاس روپے پاؤ والی مرچوں کو ملا کر نئی تھیلی تیار کی تھی اس لئے ناک کو ہاتھ لگاتے ہی اُسے چھینکیں شروع ہو جائیں گی لہٰذا اس نے ناک چھونے کی عادت کانوں کو قدرے زیادہ کھینچ کر ہی پوری کر لی۔


جب سے چاچا اللہ دتہ فوت ہوا تھا بڑے حاجی صاحب نے چاچے کی بیوہ چاچی حمیداں کے لئے زکوۃ کا دو ہزار مقرر کر دیا تھا جو وہ ہر مہینے باقائدگی سے عبداللے کے دکان پر دے جایا کرتے، دکان پر اس لئے کہ گواہان کی موجودگی کی سند رہے اور "بوقت ضرورت" کام آئے۔


چاچی حمیداں جو زکوۃ کے پیسے پتہ کرنے دکان پر ائی تھی نے عارف کی بات سن کر اپنی میلی چادر پوری طرح کانوں ، منہ اور ناک کے گرد لپیٹ لی جیسے عارف کی بات سے بُو آ رہی تھی۔ چاچے کے مرنے اور حاجی صاحب کی طرف سے پیسوں کا انتظام کرنے کے بعد اُسے دین کی اتنی تو سمجھ آ گئی تھی کہ اس طرح کی بات کرنے والا ہر بندہ دوزخ میں جائے گا۔


بوڑھا بابا غلام نبی اینٹوں کی چوکی پر پڑی پرانی اخبار پر بیٹھا بیٹھا عارف کو ایسے سہم کر دیکھنے لگا جیسے اُس نے ایک دن اپنے صحن کے وسط میں پڑے ہوئے اُس خط کو دیکھا تھا جو اُس کی بیٹی گھر سے بھاگنے سے پہلے چھوڑ گئی تھی۔


حمید گجر عرف میدا پہلوان احاطے کی اس پرانی دکان کے سامنے پڑی ڈھیلی چارپائی کے درمیان سے کھسک کر کنارے پر آگیا تھا اور اپنی ران پر ہاتھ رکھے ہوئے سر کو جھکا کر یوں خونی نظروںسے عارف کو دیکھنے لگا جیسے بیل سرخ کپڑے کو دیکھتا ہے۔ وہ بس اس انتظار میں تھا کہ عارف ایک بات اور کرے تا کہ اُسے یقین آ جائے کہ جو کچھ اس نے سنا ہے صحیح سنا ہے تو وہ جھپٹ کر عارف کو ٹانگوں سے اٹھائے اور روڑی والی زمین پر پٹخ کر ٹھنڈا کر دے


ملک سیاسی بندہ تھا وہ جذبات سے نہیں گہری سوچ بچار سے کام لینے کا عادی تھا،


پرانی کرسی پر بیٹھے بیٹھے مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا کسی گہری سوچ میں سے نکل کر بولا


اوئے عارفے تمھیں پتہ ہے تو کیا کہہ گیا ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے


ملک کی بات سُن کر بابے غلام نبی کی ڈھارس بندھی تو وہ بھی بولا


بیٹا کیا تمھاری نظر میں بزرگوں کی یہ عزت یہ مقام رہ گیا ہے


عارف حیرت زدہ ہو کر سوچ میں پڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ بزرگ ۔۔۔ 


اور پھر کچھ سمجھتے ہوئے اچھل کر بولا


او نہیں چاچا ۔۔۔اللہ والَیو۔۔۔۔ مجھے تو یاد بھی نہ تھا کہ تایے دینو کا بھی پورا نام اسلام دین ہے


وہ تو ہمارے سر کے صاحب ہیں ہمارے لئے رحمت کا باعث ہیں


میں تو اس اٹھائی گیرے اُس خبیث اسلام کی بات کر رہا تھا جو ہمارے محلے میں نیا آیا ہے اور


جس کی وجہ سے آئے روز جھگڑا فساد ہو رہا ہے۔










No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...