Sunday, January 4, 2015

زندگی ، ریاضی اور "لا" کی قیمت۔


ہمارے خیال میں زندگی کے اکتالیسویں بیالیسویں برس یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمیں زندگی کی سمجھ نہ آ سکی۔ 

کم از کم اب تک تو بالکل کوئی بات پلے نہیں پڑی اب آگے کیا ہوتا ہے یہ وہی جانے جس نے یہ گورکھ دھندہ یا تانا بانا بُنا ہے۔ ہاتھی گزر گیا دم باقی رہ گئی اب اگر سمجھ آ بھی گئی تو دم کے بارے میں ہی آئے گی ہاتھی تو گیا۔

لیکن آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو گی ہم اس ناسمجھی پر بہت خوش اور شکر گزار ہیں۔ اصل میں زندگی کے ساتھ ہمارا سمجھنے کا تعلق کچھ ایسا ہی رہا جیسا کہ پہلی دوسری جماعت سے لے کر میٹرک تک ریاضی کے مضمون کے ساتھ ہمارا رشتہ رہا، ریاضی کی سمجھ بھی ہمیں اٗس وقت آئی جب میٹرک کے بعد یہ غیر ضروری مضمون ہی نصاب سے نکال دیا گیا یا کم از کم اختیاری ہونے کی وجہ سے ہماری زندگی سے باہر نکل گیا۔ ریاضی میں بھی ہمیں اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا تھا جسیے مسائل ہمیں زندگی میں درپیش رہے، مثال کے طور پر ہم نے اپنے ریاضی کے ماسٹر صاحب سے جب یہ سوال کیا کہ استاد جی آپ نے تختہ سیاہ پر یہ جو سوال لکھ کر حکم دیا ہے کہ معلوم کرو کہ یہ مساوات برابر ہے کہ نہیں، تو جب ہمیں معلوم ہی نہیں کہ یہ برابر ہے بھی یا نہیں تو ہم اسے مساوات کیوں کہہ رہے ہیں۔ آپ کا سوال تو یوں ہونا چاہیے کہ معلوم کرو کہ یہ مساوات ہے کہ عدم مساوات ماسٹر صاحب نے پہلے تو چند لمحے اپنے گریبان کی طرف کچھ غور کرنے کے انداز میں جھانکا یا شاید فقط دیکھنے پر ہی اکتفا کیا ہو اور اور پھر ہمیں ایک ہاتھ پر چار اور دوسرے پر تین چھڑیاں بڑے ظالمانہ انداز میں لگا کر کہا ، بیٹا یہ مساوات برابر نہیں ہے اور پھر دوسرے ہاتھ پر ایک اور چھڑی رسید کرتے ہوے بولے۔۔۔۔اےےے۔۔۔یہ لو اب یہ برابر ہو گئی۔

معمولات زندگی میں بھی اگر کبھی خدا سے کلام کرنے کا موقع ملا اور ہم نے از راہ اشتیاق ہی ہولے سے کہہ دیا کہ اللہ میاں کیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ ہم پڑھ پڑھ کر اور محنت کر کر کے بھی بیس ہزار کے ملازم اور ان پڑھ چوہدری صاحب کا جاہل بیٹا پٹواری بن کر ایک ہی سال میں کوٹھی اور پاجیرو کا مالک تو بالکل ریاضی کے ماسٹر صاحب کی طرح اللہ میاں نے اوپر نیچے پانچ سات لگائیں، مثال کے طور پر غیب سے لگی لگائی نوکری جانے کا امکان پیدا ہو جانا، ہنستے بستے گھر میں اچانک طلاق تک نوبت پہنچ جانا اور ہٹے کٹے وجود کو تین چار بیماریوں کا گھیر لینا اور پھر تھوڑا سا ٹھیک ٹھاک کر کے ہم سے شکرانے کے نوافل ادا کرا کے وہ ذات کریم بولی ، ہاں اب سناؤ مساوات ہے یا عدم مساوات۔

ہم جب پانچھویں جماعت میں پہنچے تو اچانک یہ الجبرا نام کا چھلاوہ ایک پورا دیو بن کر ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ نئے نئے ماسٹر جی تھے ہم بھی کچھ بڑے بڑے سے ہو رہے تھے بڑے پیار اور احترام آمیز سے جذبے سے بولے میرے بچو آج ہم ایک نئی طرح کا سوال حل کریں گے، تختہ سیاہ پر حروف اور ہندسوں کی ایک لمبی سطر لکھ کر بولے ، اس سوال میں ہمارا مقصد ہے "لا" کی قیمت معلوم کرنا ، ہم اسلامیات کی وجہ سے عربی میں کچھ بہتر تھے فورا بولے ماسٹر جی لا کا مطلب ہے نہیں۔ وہ ایک دم کچھ بولتے بولتے رہ گئے جیسے ہمارے ابا جی ہمیں موٹی سی گالی دینے سے پہلے کبھی کبھی رک جایا کرتے تھے، اور پھر کچھ توقف کر کے بولے بیٹا لا کا مطلب نہیں۔۔۔ لا کی قیمت معلوم کرنی ہے ۔ اب اس وقت ہم بیالیس برس کے ہوتے تو فورا کہہ دیتے ماسٹر جی یہ قیمت معاشی لحاظ سے معلوم کرنی ہے مذہبی لحاظ سے ادبی لحاظ سے یا عائلی ضابطوں کے اندر کیوںکہ بیوی کے سامنے لا کے معنی ہیں اس دن کا کھانا نہیں ملے گا، ملا جی کے سامنے لا کا مطلب ہے سیدھا جہنم میں ایک نقاد کے سامنے لا کا مطلب ہے کہ آپ کی ساری تخلیقات ثابت شدہ سرقہ ہیں لہٰذا آپ ایک تخلیق کار نہیں ایک گھسیارے ہیں اور دفتر میں باس کے سامنے لا کا مطلب ہے آپ نوکری سے یا کم از کم پروموشن سے فارغ۔۔۔ لیکن پانچویں جماعت میں بیالیس سال کا ذہن کچھ مناسب نہ لگتا سو شاید ہم خاموش ہی رہے تھے، لیکن ایک گھنٹے کا پیڑیڈ ختم ہونے کے قریب قریب ماسٹر صاحب نے پورا تختہ سیاہ سفید کرنے کے بعد بتایا کہ لا کی قیمت صفر ہے۔

حلفا کہتے ہیں کہ زندگی میں بھی یہی کچھ ہوا، شادی الجبرے ہی کی ایک ترقی یافتہ قسم ہوتی ہے، بہت سی باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی جبراؑ قبول کرنا پڑتی ہیں اور بہت سی خواہشیں پوری نہ ہونے کے باوجود مساوات میں برابر دیکھانا پڑتی ہین۔ اور پھر شادی کے دس سال بعد لا کی قیمت صفر ہی نکلتی ہے۔ ہاں شادی کے الجبرے میں یہ فرق ہے کہ یہاں فقط لا کی نہیں بیگم کی ویلیو معلوم کرنا پڑتی ہے جو زمینی حقائق کے پیش نظر کبھی صفر نہیں آئی چاہئے ورنہ بیوی زیورات اور بچوں کو لے کر میکے چلی جاتی ہے اور آپ گھر کی مساوات کے دونوں طرف الو کی آنکھوں کی طرح صفر کی صورت مخبوط الحواس بیٹھے نظر آتے ہیں۔

ریاضی اور بالخصوص الجبرے میں ایک اور بڑی عجب شے تھی ، جس کا نام تھا " فرض کیا" ماسٹر صاحب جب ہمیں کہتے پیارے بچو فرض کیا لا کی قیمت ایک ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کبھی سمجھ نہ آئی کہ ہم فرض کر کے سوال کا جواب کیسے تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن جواب نکل آتا تھا ، اکثر وہی صفر یا زیرو۔۔۔۔۔ عملی زندگی خاص طور پر برادری اور حلقہ احباب کی ضرورت و اہمیت کے سلسلے میں ہمیں جب بھی کبھی نا سمجھی نے گھیرا تو یہ فرض کیا ہمارے بہت کام آیا۔۔۔ ماسٹر جی فرض کر کے مساوات کے تمام حروف و اعداد کو کاٹتے اور مٹاتے جاتے تھے اور آخر میں فقط ایک لا اور ایک اُس کی قدر و قیمت رہ جاتی تھی ، بڑے ہو کر برادری اور جان چھڑکنے والے احباب کے لئے بھی جب کبھی ہم نے فرض کیا کہ ہم پر کوئی مصیبت نازل ہو گئی ہے یا اپنے آپ کو انسان ثابت کرنے کے چکر میں فرض کیا ہم سے کوئی خطا سرزد ہو گئی تو کاٹنے اور مٹانے کی ضرورت ہی نہ پڑی زندگی کے تختہ سیاہ پر سے تمام رشتے اور تمام سہارے خود بخو د محو ہونے لگے اور آخر میں ایک ہم اور ایک ہماری قیمت یعنی صفر رہ گئے۔

ایک دن ہم سے ایک دہریہ کہنے لگا فرض کیا خدا نہیں ہے، ہم نے کہا اوہ اب کیا ہو گا اب تو کائنات رک جائے گی، لیکن قسم سے ایک لحظے کو نہ رکی ، بولا اب سب دعائیں بھول کر، بد دعائیں دینا چھوڑ کے با عمل ہو جاؤ کیونکہ رزق مقدر میں نہیں ہے کام کرو گے تو کھاؤ گے ، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں نہیں ہے کے چاہے گا تو مارے گا چاہے گا تو بچا لے گا بلکہ عقل سے کام لو اور خطرات و نقصان سے خود بچو اور فائدے اور صحت کو خود حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارو، ہر نتیجے کو قیات تک نہ ٹالو اور اپنی ہر خباثت کا ذمہ دار شیطان کو سمجھنا چھوڑ دو بلکہ اسی دنیا میں اعمال کے نتائج سوچ سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونا شروع کر دو۔۔۔۔یقین مانیے اگر ہم کچھ دیر یہ فرض کیئے رہتے تو پتہ نہیں ہم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے لیکن ہم فورا بھانپ گئے کے کم بخت ہمیں بھی راہ راست سے ہٹا کر جہنمی کرنا چاہتا ہے لہٰذا فورا ہی تائب ہوئے اور اگلے ہی لمحے اپنا سب کچھ پھر اللہ اور شیطان پر ڈال دیا۔ 

ذات برادری اور فرد و معاشرے جیسے چھوٹےچھوٹے سوالوں سے نکل کر جب ہم مجموعی طور پر کائنات مذہب تاریخ اور حیات کے بڑے امتحانی سوالوں سے روشناس ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ اب ہماری پرائمری کی ریاضی سے کام نہیں چلے گا ، اب چونکہ سوال زیادہ لایعنی اور مضحکہ خیز ہیں اس لئے ریاضی کا بھی کوئ بڑا چغد ہونا چاہئے جس کی مشقوں اور سوالات سے ہمیں شاید کچھ کمک پہنچ سکے، خدا بھلا کرے چغد اعظم فیثا غورث کا کہ جس نے ہم سے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ساری کائنات اور یہ رنگ و بو کا سارا تانا بانا ہندسوں کا کھیل ہے اور کچھ نہیں ہے اور اس کا حاصل فقط ایک صفر ہی آتا ہے ہم بحثیت ایک کٹر "مسلمان" کچھ تذبذب کا شکار تھے کہ دور جاہلیت کے ایک منکر و مشرک کے جوابوں سے مدد لیں یا نہ لیں کہ ایک اللہ لوگ نے بتایا کہ فیثا غورث درست کہتا ہے، لا موجود ال اللہ۔۔۔۔۔اب آپ ہی بتائے کہ ہم شکر ادا نہ کرتے تو اور کیا کرتے کہ ہماری نا سمجھی کا بھرم رہ گیا اور ہم یہ جان گئے کہ جس شے کی ہمیں سمجھ نہ آئی وہ خیر سے ہے ہی نہیں۔ 


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...