Sunday, January 4, 2015

اڑن کھٹولہ، پریاں اور ہماری بے زاری۔


ابا جی سے اکثر بحث مباحثہ اور بعض معاملات پر تنقیدی نوعیت کی گفتگو کا سلسلہ رہا کرتا تھا۔نظریات میں اختلاف تھا اس لئے اکثر اختلاف رائے بھی ہو جاتا اور بعض اوقات بات دودھ پتی یا کڑاھی گوشت کی شرط پر رکتی، ایک دفعہ ایسی ہی کسی گفتگو میں انسان کی ناشکری اور فطری اکتاہٹ پر بات پھنس گئی، ابا جی بضد تھے کہ انسان ہر حال میں نا شکرا ہے اور اگر اٗس کی ساری کی ساری خواہشات بھی پوری کر دی جائیں تو وہ شاکی ہی رہے گا اور کچھ ہی دیر میں اپنی تشنہ ترین حسرت کی باریابی سے بھی بے زار ہو جائے گا، میرا اس بات سے اختلاف تھا میرے خیال میں اگر خدا انسان کی تمنائیں بر لائے اور زیادہ کبریائی کا مظاہرہ نہ کرے تو انسان خوش و خرم بلکہ شکر گزار رہ سکتا ہے۔مثال کے طور پر، وہ چِڑ کے بولے، مثلا۔۔۔۔۔ جیسے ، میں نے کچھ مثالیں پیش کیں، جیسے ہمیشہ صحت مند اور جوان رہنے کی خواہش، ہواؤں میں اڑنے کی خواہش،یا سب سے بڑھ کر جو چاہو وہ پالینے کی خواہش، اب دیکھیں اگر مجھے ایک اڑنے والا غالیچہ یا کھٹولہ مل جائے، کچھ پریاں ہوں جو میری خدمت پر مامور ہوں ، مجھے اُڑاتی پھریں ، مجھے کھانے ، مشروب اور جو مانگوں وہ پیش کریں جہاں چاہوں وہاں لے جائیں تو کون کافر ہے جو بے زار ہو یا ناشکری کرے گا۔ ابا جی نے گاؤ تکیہ کمر کے پیچھے سے کھسکایا اور بستر پر دراز ہوتے ہوئے بولے ، اپنی کریہہ شکل لے کر میرے کمرے سے نکل جاؤ، میں تم سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتا، مجھے پتہ تھا اب دو تین دن کوئی بات نہیں ہو گی اس لئے میں نے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔

میں ٹیکسی کے لئےادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے تصور میں ابا جی سے ہی باتیں کر رہا تھا اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ بیس سال پہلے لگائی گئی شرط آج ابا جی کے مرنے کے دس سال بعد میں ان سے ہار گیا ہوں یا نہیں ۔ کیونکہ ایک دن آیاکہ میں اس منزل پر پہنچ گیا جہاں ایک خوبصورت سی پری نے میرے آگے جھک کر کہا، حضور اس طرف، اور میں شان بے نیازی لیکن ایک تمکنت سے چلتا ہوا آگے بڑھ گیا ، ایک بڑے سے غالیچے پر ایک محمل کے انداز میں ایک کھٹولہ سا بنا کر مخملیں پردے آویزاں کر کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت صوفہ بھی سجا دیا گیا تھا، میں صوفے میں دھنس کر بیٹھ گیا، وہ پری ایک دوسری پری کو لے کر آئی اور دونوں میرے ارد گرد منڈلانے لگیں، ان کی معطر سانسوں اور گداز لمس نے پہلے تو ہمارے تن من کو ہوا میں بلند کیا اور پھر قاف کی چوٹیوں جیسے نشیب و فراز والے سراپوں کے ہلکے ہلکے ٹھوکوں اور خواب ناک مناظر نے جیسے مدہوش کر دیا، کبھی وہ میرے لئے لگائے گئے صوفے کو درست کرتیں، کبھی میرے اوپر سے لپک کر مخملیں پردے سنوارے جاتے کبھی مجھے اور کبھی محمل کو دیکھا جاتا ، پھر دونوں موءدب انداز میں ہاتھ باندھ کر میرے سامنے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئیں، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت، شاید انھوں نے بھی میری حیرت و بے یقینی کو محسوس کر لیا اسی لئے ایک پری مسکراتے ہوئے میرے پاس آئی اور جھک کر بولی ، لگتا ہے ہمارے حضور کا اڑنے والے غالیچے کا یہ پہلا اتفاق ہے اگر حکم کریں تو ہم کچھ مدد کریں، میں نے انسانوں کی اجتمائی تکریم اور اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا بھرم رکھتے ہوئے ایک شان بے نیازی سے کہا ، نہیں بھئی، اگر ہمیں کسی شے کی ضرورت ہوئی تو ہم تمھیں اشارہ کریں گے۔ ہمارے دل میں خیال گزرا کیا یہ غالیچہ کوہ قاف کی کہانیوں کی طرح اڑے گا بھی یا فقط ایک دکھاوا اور دھوکہ ہی ہے ، شاید وہ ہمارے دل کی آرزوئیں بھی جان سکتیں تھی اسی لئے تو انھوں نے ایک دلربا مسکراہٹ کے بدلے ہمیں درست ہو کر بیٹھے کی درخواست کی اور یہ لو، دفعتا ہماری محمل نے ایک ہچکولا سا لیا اور ہوا میں بلند ہو گئی، ہمارا دل جیسے اچھل کر حلق میں آ گیا لیکن بچپن کی حسرت کے پورا کرنے کی خاطر اور پری زادوں کے سامنے آدم زادوں کی حرمت بچانے کے لئے کچھ تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہی تھا سو ہم اطمینان سے براجمان رہے۔

غالیچہ کا بلند ہونا تھا کہ ہم پست ہونا شروع ہو گئے۔ ہمیں لگا جیسے ارد گرد کی ہر چیز بہت معمولی، چھوٹی اور بوسیدہ سی ہے، دونوں میں سے ایک پری ہمارے بالکل قریب آئی اور ہماری کان کی لو سے اپنے یاقوتی ہونٹ مس کرتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں بولی حضور کی طبیعت بوجھل تو نہیں ہو رہی ہم نے نفی میں سر تو ہلایا لیکن ہماری سٹی کمبخت کہیں گم ہو گئی تھی جس کو اُس مہ رخ کی جھیل جیسی آنکھوں نے کہیں بھانپ لیا شاید اسی لیے اُس نے اپنی ایک بازو ہماری گردن کے پیچھے رکھی اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے سر پر منتر کے انداز میں کچھ پھیرا ، یک دم ہلکی ہلکی مدہم سے روشنی اور یخ بستہ ہوا نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا، لیکن اسی پر بس کہاں ہوئی ہماری مہرباں نےمحمل کی ایک دیوار پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیریں اور جادو کے زور پر وہاں سے ایک چھوٹی سی ٹہنی سی نکال کر ہمارے کانوں سے لگا دی، ایک مدھر سی موسیقی ایک میٹھی سی تان نے جیسے ماحول میں رس گھول دیا اور ہماری پلکیں بوجھل ہونے لگیں اچانک ہمیں خیال آیا کہ ہماری اڑنے کی خواہش کا نقطہ کمال تو یہ حسرت تھی کہ ہم بادلوں پر تیرتے پھریں اور پرندوں سے بھی بہت اوپر اڑ کے دیکھیں کہ ہماریے گرد و نواح کی دنیا کیسی لگتی ہے، ہم نے آنکھیں کھولیں محمل کا پردہ سرکایا اور نیچے پھیلے ہوئے منظر پر حقیقت میں طائرانہ نظر ڈالی، اوہ خدایا کیا حسن ہے ، کیا خوبصورتی ہےتیری اس دنیا کی، تیری کائنات کی کیا بات ہے۔ زلفوں اور ان میں بسی خوشبو کی طرح اڑتے اور تیرتے ہوئے سیاہ و گلابی بادل اور اُن کے بیچوں بیچ تیرتے ہوئے ہم ، نیچے گلی محلے مکان بڑی بڑی سڑکیں بلکہ پورا شہر اس طرح دکھائی دے رہا تھا جیسے ہم کسی دوشیزہ کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ رہے ہوں، بڑے بڑے پہاڑ کسی کے سینے کے زیر و بم کی طرح زمین کے مخملیں بستر پر محو استراحت نظر آ رہے تھے ، دریا کے کنارے کنارے درختوں کی قطاریں جیسے کسی آنکھ میں مہارت سے لگا ہوا کاجل ۔
بالائی سطح کے طلسم کی تو بات ہی کچھ اور تھی ہمیں پہلی بار احساس بلکہ یقین ہوگیا کہ جس کو ہم خلا کہتے ہیں وہ خلا نہیں ہے۔ وہ تو رنگ و نور، اور کیف و سرور کا ایک سمندر ہے ، جب آپ مادے کی قید سے تھوڑی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو آ پ کو پتہ چلتا ہے کہ مادہ کتنا حقیر کتنا، کثیف اور کتنا مادی ہے۔


اچانک کہیں سے ہمارے کاندھے پر پھولوں کی ایک ڈالی سی جھول گئی مڑ کر جو دیکھا تو ایک اور خوبصورت پری جو پہلی والی سے بھی کم سن ، حسین و جمیل اور شوخ ادا تھی ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھے کھڑی مسکرا رہی تھی، کیسا لگ رہا ہے حضور، بہت اچھا، ہم خوش ہوئے، ۔۔۔ کیا کچھ تناول فرمائیے گا، آں ، ارے ہاں کچھ کھانا چاہئے ہمیں تو خیال ہی نہ رہا کہ ہمیں کچھ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ ہماری شوخ ادا نے ہمارے ہی پنگھوڑے پر کچھ پڑھ کر ہاتھ پھیرا اور چشم زدن میں وہاں کھانے کی ایک میز نمودار ہو گئی اس نے ایک زنبیل میں ہاتھ ڈالا اورپکوان اور مشروبات نکال نکال کر ہمارے سامنے قرینے سے پرونے لگی، تمام اشیاء ایک ہی جگہ سے برآمد ہونے کے باوجود کھانا اتنا تازہ اور گرما گرم اور مشروبات اتنے ٹھنڈے تھے کہ ہم ممنون اور مسحور ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔


کھانا کھا کر ہم اس قدر سرور میں آئے کہ پتہ ہی نہ چلا کب آنکھ لگ گئ نہ جانے کب تک ہم خواب میں بھی اور حقیقت میں بھی بادلوں اور فضاؤں پر تیرتے رہے، جب آنکھ کھلی تو اُس توبہ شکن کو اپنے بالکل پاس اپنے احکامات کی منتظر پایا، ہماری آنکھ کھلتے ہی اُس کے لب ہلے ، چائے دوں، کون کافر تھا جو انکار کرے ، گردن خود بخود اقرار میں جنبش کھا گئی لیکن اس معصوم کو ہمارے اندر کے کرب کا کیا اندازہ تھا ، وہ کرب جو جاگنے کے بعد پچھلے چند لمحوں کے ادراک میں ہم پر گزر گیا تھا، بھلا کس طرح ، وہ بھی ایک پری کو ، وہ بھی ہوا میں تیرتے ہوئے ، بادلوں کا جھولا جھولتے ہوئے ، فضاؤں میں مادے کی کثافتوں سے دور بلند و بالا ہوکر ، کس طرح ہم اس کو بتاتے کہ ہمیں رفع حاجت کے لئے جانا ہے ۔ لیکن یہ ایک حقیقت تھی، یہی اس وقت کی سب سے بڑی سچائی تھی۔

مرتا کیا نہ کرتا، پہلے ایک دو بار پنگھوڑے میں ہی کروٹیں بدلیں، کچھ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر چہرے پر درد اور تکلیف کے تاثرات ابھارے اور پھر بڑی خجالت سے اپنی پری زاد کو ایک عامیانہ سا اشارہ کر کے اپنی طرف بلا لیا، اب جو وہ ہمارے قریب آ گئی تو اظہار تمنا کا مرحلہ درپیش آ گیا، لعنت ہو ایسے لمحے پر جب ایک خوبرو مہ رخ سے دل کا حال بیان کرنے یا عشق و محبت کے اظہار کی بجائے آپ کو بیت الخلا جانے کی خوہش کا اظہار کرنا پڑے ، لیکن مصیبت انسان سے بہت کچھ کراتی ہے، ہم نے بھی کیا اور اسکول دور کی ایک آزمودہ ترکیب سے کام لیتے ہوئے اپنی چھنگلی اٹھا کر مسکراتے ہوئے اٗس کی طرف دیکھا، ہائے رے اٗس کی خود سپردگی اور خدمت گزاری کہ اٗس نے ہماری انگلی پکڑی اور ہماری محمل کے ایک کونے میں جا کر پھر جادو کے انداز میں اپنے ہاتھ کو گردش دی ، یہ لو ہوا میں اڑتے ہوئے ہمارے سامنے دیوار میں ایک بیت الخلاء نمودار ہو گیا، اب اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے، ہم جلدی سے اُس سے ہاتھ چھڑا کر اندر بھاگے اور نیچے اٗڑتے ہوئے تمام پرندوں اور بادلوں اور کسی حسینہ کی ہتھیلی کی لکیروں کی طرح پھیلی ہوئی گلیوں اور سڑکوں سے معذرت کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ 

باہر آ کر ہم نے پھر ایک طائرانہ نگاہ افق پر ، بادلوں پر پرندوں پر اور نیچے پھیلی ہوئی ارض خدا پر ڈالی، لیکن اس بار وہی مناظر دیکھ کر کچھ زیادہ جذباتی نہ ہو سکے، نیند تو پہلے ہی پوری کر چکے تھے سو اب سونے کا بھی امکان نہ تھا، ، کانوں پر لگی زیتون کی شاخ سے نکلنی والی موسیقی سے بھی دل بھر سا گیا، اب کیا کیا جائے ، ہم نے اپنے پنگھوڑے نما صوفے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ میگزین موجود پا کر خاصے مطمئن ہوئے لیکن کتنی دیر پندرہ منٹ کے بعد ان کو تہہ کر کے واپس پھینک دیا اور غصے میں آنکھیں موند کر گردن پیچھے ڈھلکا دی۔ 

چالیس پینتالیس منٹ کے بعد جب ہمارا کھٹولہ زمین پر اترا اور ہم اٹھ کر نیچے اترنے لگے تو دونوں پریا ں مسکراتے ہوئے بڑے مؤدب انداز میں بولیں ، حضور کچھ شکایت کوئی پریشانی، ہم نے نا گوار سا منہ بنا کر کہا ، آپ کی ائر لائن تو اچھی ہے لیکن چھوٹے جہاز استعمال کرتے ہیں اگر یہی سفر ایئر بس پر ہوتا تو پورے پچیس منٹ جلدی پہنچ سکتے تھے۔ 

ائر پورٹ سے نکل کر میں ٹیکسی کے لئے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے تصور میں ابا جی سے ہی باتیں کر رہا تھا اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ بیس سال پہلے لگائی گئی شرط آج ابا جی کے مرنے کے دس سال بعد میں ان سے ہار گیا ہوں یا نہیں ۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...